جون2011میں سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بٹھنڈا پنجاب سے جموں کے راستے سرینگر تک 5000ک روڑلاگت والے725 کلو میٹر گیس پائپ لائن کے اہم پروجیکٹ کو منظوری دی تھی؟ جسے تین سال میں مکمل کرنے کا اعلان کیاگیا تھااور تکمیل کی حتمی تاریخ 6جولائی2014مقرر کی گئی تھی تاہم آج صورتحال یہ ہے کہ9سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس پروجیکٹ پر کام کا آغاز ہونا باقی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ کے نزدیک یہ پروجیکٹ اس لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ متبادل توانائی کامؤثر ذریعہ بن سکتا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ انہوںنے مقررہ مدت کے اندر اندر اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی اور اس کے بعد اس پروجیکٹ پر پیش رفت کے حوالے سے جائزہ میٹنگیں بھی طلب کرلی تھیں ۔کون یہ بھول سکتا ہے کہ 10دسمبر2012کووادی میں رسوئی گیس کے شدید ترین بحران کے بیچ وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ نے امید ظاہرکی تھی کہ بٹھنڈا جموں سرینگر725کلو میٹر لمبے گیس پائپ لائن پروجیکٹ کو جولائی 2014تک مکمل کیا جائیگا۔اُس روز اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وزیر اعلی نے متعلقہ افسران پر فاسٹ ٹریک بنیادوں پر مذکورہ پروجیکٹ کے منصوبے پر کام شروع کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاتھا کہ اس پروجیکٹ کو بروقت مکمل کیا جائے ۔725کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن کو بٹھنڈا سے سرینگرکٹھوعہ،سانبا،جموں،ادھمپور،رام بن،اننت ناگ اورپلوامہ کے راستے لانا مقصود تھا۔محکمہ مال اور محکمہ قانون کو ہدایت دی ہے کہ وہ گیس پائپ لائنوں کو بچھانے کیلئے گیس کمپنی کو اراضی فراہم کرنے کیلئے ریاستی آئین کے تحت اقدامات اٹھائیں۔گوکہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر محکمہ مال نے محکمہ قانون سے مل کر ایک آر ڈی نینس تیار کروایا اورجون 2013میں گورنر نے یہ آر ڈی نینس جاری کرواکے اس پروجیکٹ کیلئے اراضی کے حصول کو ممکن بنادیا تاہم آج تک اس کے بعد عملی طور کچھ نہ ہوا۔کٹھوعہ اور سانبہ میں اراضی حصول کا عمل شروع تو ہوا تھا لیکن بات آگے نہ بڑھی اور نہ ہی دیگر اضلاع میں ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیںآئی۔
اتنا ہی نہیں،بعد ازاں 28نومبر2018کو سابق گورنر نے بھی گیس پائپ لائن کی تکمیل کیلئے قانون میں ترمیم کو منظور ی دی تھی تاکہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کی ٹائم لائن بڑھائی جاسکے۔اُس وقت کہاگیاتھا کہ 2019کے اختتام تک سرینگر کو گیس پائپ لائن ملے گی اور اس کے بعد 18سے24ماہ تک دارالحکومتی شہروں جموں وسرینگر کے علاوہ دیگر سبھی بڑے قصبہ جات کو گیس ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک سے جوڑا جائے گاتاہم عملی صورتحال یہ ہے کہ وزارت پیٹرولیم و قدرتی گیس نے اس کا ٹھیکہ جی ایس پی ایل گیس نیٹ لمیٹیڈ کو دیا ہے جس نے تاحال جالندھر سے امرتسر تک صرف102کلو میٹر لمبی پائپ لائن بچھائی ہے جبکہ وہاں سے آگے کچھ کام نہ ہوپایاہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سرما کے دوران وادی میں رسوئی گیس کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ جہاں گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے وہیں سرینگر جموں شاہراہ اکثر وبیشتربند رہنے کی وجہ سے گیس نایاب رہتا ہے جس کے نتیجہ میں گیس کی ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔ایسے میں اگر کشمیر وادی اور جموں کے پیر پنچال اور چناب خطہ کو گیس پائپ لائن کے ذریعے جوڑا جاتا تو یقینی طورپر گیس کی قلت پر قابو پایا جاسکتا تھا۔حکام یہ کہنے میں بھی حق بجانب تھے کہ گیس پائپ لائن سے بجلی پر انحصار کافی حد تک کم ہوجائے گا کیونکہ رسوئی گیس پائپ لائنوں کے ذریعے جب صارفین تک پہنچ جائے گا تو اس کی قیمت بجلی سے کم ہوگی اور یوں بجلی کا بحران بھی کم ہوسکتا ہے اور بجلی کی عدم دستیابی کے حوالے سے صارفین کی شکایات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
جموںوکشمیرکے عوام کو بالعموم اور وادی کشمیر کے لوگوں کو بالخصوص گرمی اور رسوئی کیلئے مہنگے داموں بجلی استعمال کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے اور نہ ہی وہ بجلی کا بیجا استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن جب کوئی متبادل ہی نہ ہو تو ان کے پاس بجلی پر اکتفا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ہے ۔اس صورتحال میں اگر صارفین تک قدرتی گیس کی ترسیل یقینی بنائی جاتی تو وہ بلا چوں و چرا گیس کنکشن حاصل کرتے تاہم جس طرح9برس گزر جانے کے باوجود بھی پروجیکٹ شروع نہ ہوپایا ،اس نے عوام کے خدشات کو جائز ٹھہرایا ہے ۔ پروجیکٹوں کی عمل آوری ،تکمیل اور انتظام و انصرام کے تعلق سے ریاست کی سرکاری مشینری پہلے ہی عوام کا اعتماد کافی حد تک کھوچکی ہے ،ایسے میں اگر گیس پائپ لائن پروجیکٹ کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانا ہے تو روایت سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔جس محکمہ کو پروجیکٹ کی نوڈل ایجنسی کے طور مقرر کیا گیا ہے ،وہ محکمہ اپنی کرتوت کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد کھو چکا ہے ،ایسے میں حکام بالا کو شاید دوبارہ غور کرنا پڑے گا کہ کیا واقعی مذکورہ محکمہ یہ کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔نیز حکومت کو اپنے عمل سے پروجیکٹ کے تعلق سے عوامی خدشات کا ازالہ کرنا ہوگا تاکہ اس پروجیکٹ کی تکمیل میں حکومت کو عوام کا تعاون بھی شامل حال ہو کیونکہ عوامی تعاون کے بغیر اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے ۔