کشمیرکی شہ رگ کہلائی جانے والی سرینگر جموں قومی شاہراہ پر جس طرح ٹریفک جام معمول بن گیا ہے ،وہ مستقبل قریب میں پیش آنے والی نئی ہولناکیوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔قومی شاہراہ پر ٹریفک جام کا یہ عالم ہے کہ سرینگر سے جموں تک محض8سے 10گھنٹوں کا سفر اب 20کیا 30گھنٹوں میں بھی طے نہیں ہو پاتا ہے ۔گوکہ جمعہ کو شاہراہ مرمت کی غرض سے ٹریفک کیلئے بند رہتی ہے لیکن گزشتہ دو ایک ہفتوںکے دوران شاہراہ پر ٹریفک جام کی جو صورتحال بنی رہی ،وہ حکام کیلئے لمحہ فکریہ ہونی ہی چاہئے تاہم یہ صورتحال اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کیلئے مصائب و الم کی ایک طویل داستان لیکر آتی ہے۔ٹریفک نظام کی اس بدنظمی کی وجہ سے شاہراہ پر جان گنوانے اور زخمی ہو نے والوں کی تعداد سے متعلق اعداد و شمار بھی اب زیادہ مؤجب ِ استعجاب و دلچسپی نہیں رہ گئے ہیں اور اسی وجہ سے اسے غیر سرکاری طور پر خونی شاہراہ کا نام بھی دیا گیا ہے لیکن تقریباً پورا سال ہی تواتر سے لگنے والے ٹریفک جاموں کے باعث جو نئے خطرات منڈلا نے لگے ہیں ، اس پہلو پر شاید ابھی تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔خصوصی طور پر گزشتہ دو سال کے دوران صورتحال بد سے بد ترہوتی جارہی ہے اور ہر نیا دن شاہراہ پر سفر کر نے والوں کے لئے قیا مت خیز جسمانی و ذہنی تکالیف و الم کے تجربات سے دو چار کر نے والا ثابت ہو رہا ہے۔
پہلے جہاں موسم سرما میں برفباری یا برسات کے دوران بارشوں کی وجہ سے ہی شاہراہ بند ہوا کرتی تھی یا کبھی کبھار ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے جام لگ جاتے تھے وہاں اب کسی بھی موسم میں اور کسی بھی وقت طویل ٹریفک جام لگنا معمول بن چکا ہے، جس کے دوران روزانہ ہزاروں مسافروں کو لا متناہی اور جان لیوا مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔ بے آ ب و گیاہ مقامات پر بزرگوں ، خواتین اور بچوں کو جب پورا پورا دن اور رات گاڑیوں میں گذارنی پڑتی ہے تو انہیں کن تکالیف کا سامنا ہوتا ہے اس کا احساس حکومتی وزراء اور حاکمان ِ اعلیٰ نہیں کر سکتے، جنہیں اول تو شاہراہ پر سفر کر نے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور کبھی محض تفنن طبع کے طور پر انہوں نے اس کا فیصلہ کر بھی لیا تو اس بات کا خصوصی اہتمام کیا جا تا ہے کہ ’’ صاحب ‘‘ کا سفر بہر صورت بلا رکاوٹ گزر جائے۔
مسلسل ٹریفک جام لگنے سے پورے ضلع رام بن کی آبادی بھی ایک طرح سے یرغمال بن چکی ہے اوربین تحصیل و بین قصباتی نقل و حمل بھی مکمل طور پر درہم برہم ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سرکاری ملازمین ، طلبا اور عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں بلکہ شدید قسم کے مریضوں کو ہسپتالوںتک پہنچانا محال ہوجاتا ہے اور اگر خدا نخواستہ شاہراہ پر یا آس پاس کی رابطہ سڑکوں پر کوئی حادثہ پیش آجائے ، جس کا ان علاقوں میں ہمیشہ احتمال رہتا ہے ، تو صورتحال کیا ہو گی ، اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
اب یہ عام فہم بات ہے کہ رام بن اور بانہال کے درمیانی سیکٹر میں شا ہراہ کا فی تنگ اور خستہ حال ہے اور معمولی سی رکاوٹ بھی ٹریفک جام لگانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ بے لگام ٹاٹا سومو اور دیگر چھوٹی گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات مزاجاً کافی عجلت پسند ہیں اور ٹریفک کی اخلاقیات سے انہیں خدا واسطے کا بیر رہتا ہے۔ لہٰذا اگر ان کے آگے چلنے والی گاڑی رفتار محض سست کر دے تو وہ اس سے آگے نکلنے کی تگ و دو شروع کر دیتے ہیں جو بیشتر اوقات دو دو تین تین لائنیں لگنے کی وجہ سے طویل ٹریفک جام کا پیش خیمہ ثابت ہو جاتی ہے۔
اگر چہ متعلقہ محکموں کے حکام ہر بار اس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لئے تیر بہدف نسخے ایجاد کر نے کا عزم دہراتے ہیں لیکن ابھی تک کے تجربات یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ یہ کاغذی اعلانات اور اقدامات بھی محض زیبائشی قسم کے ہو تے ہیں جن کا حقیقی مرض کے علاج سے دور دور تک کاواسطہ نہیں ہو تا ہے۔فی الوقت سرینگر جموںشاہراہ پر جو صورتحال پنپ رہی ہے، اس کی طرف اگر فوری طور توجہ نہ دی گئی تو اس میں مستقبل قریب میں کسی بڑے انسانی المیے کے تمام تر جزو بدرجہ اتم موجود ہیں، تاہم صرف زبانی اعلانات اور نیم دلی سے کئے گئے اقدامات اس سنگین مسئلہ کا حل ڈھونڈنے کے لئے ناکافی ہیں بلکہ کوئی مستقل اور مستحکم پالیسی بنانے کے لئے بنیادی وجوہات کی تلاش کر نا اور ان کا سدِ باب کرنا انتہائی لازمی بن چکا ہے۔