سرینگر//سرینگر کے مضافاتی علاقہ لاوے پورہ ،ہوکر سر میں مارے گئے تین ©’جنگجوﺅں‘ کے اہل خانہ نے بدھ کو دعویٰ کیا کہ مہلوکین کاعسکریت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
اس سے قبل آج بعد دوپہر پولیس نے دعویٰ کہ لاوے پورہ علاقے میں فورسز کے ساتھ معرکہ آرائی کے دوران تین جنگجو جاں بحق ہوگئے۔یہ معرکہ آرائی گذشتہ شام سے جاری تھی۔
جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور شوپیان اضلاع سے آئے تین گھرانوں کے اہل خانہ نے پولیس کنٹرول روم سرینگر کے باہر روتے بلکتے احتجاج کیا اور لاوے پورہ میں مارے گئے نوجوانوں کی شناخت اعجاز مقبول، اطہر مشتاق ساکنان پلوامہ اور زبیراحمد لون ساکن شوپیان کے طور کی۔
نیوز ایجنسی جی این ایس کے مطابق اعجاز کے دادا بشیر احمد نے نامہ نگاروں کو دوران احتجاج بتایا ”میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کل صبح دس بجے اُس نے (اعجازنے ) میرے ساتھ بیٹھ کر چائے پی۔ مجھے نہیں معلوم بعد میں کیا ہوا،یہاں کشمیر میںیہ کیا ہورہا ہے،کیا یہی گورنر راج ہے،آﺅ مجھے بھی مار ڈالو،تم نے ایک طالب علم کو مارڈالاہے“۔بشیر احمد کا مزید کہنا تھا کہ اعجاز محمد مقبول نامی پولیس اہلکار کا بیٹا تھا جو گاندر بل تعینات ہے۔انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں چیختے ہوئے کہا”آپ ہمارے گھر ایس او جی والوں کو بھیج کر ہم سب کو مار ڈالو“۔
اطہر ولد مشتاق احمد نامی نوجوان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ وہ گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا جبکہ جاں بحق تیسرے نوجوان زبیر کے گھروالوں کے مطابق وہ پیشے سے ترکھان تھا اور شوپیان ضلع کے ترکہ وانگام گاﺅں کا باشندہ تھا۔ دونوں گھرانوں نے بھی مہلوک نوجوانوں کو”معصوم“ قرار دیتے ہوئے پولیس کے اس دعویٰ کی نفی کہ وہ جنگجو تھے۔
پولیس نے اگر چہ مذکورہ گھروالوں کے الزامات کے بارے میں کچھ نہیں بتایاتاہم پولیس اور فوج نے پہلے ہی بتایا کہ لاوے پورہ میں مارے گئے تینوں افراد جنگجو تھے اور اُن کی تحویل سے اسلح بھی بر آمد کیا گیا ہے۔