سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کے بے شمار فوائد ہیں، ان میں سے ایک اہم اور بنیادی فائدہ یہ ہے کہ سیرت نبی کا مطالعہ کرنے والا کبھی بھی اسلام، احکام اسلام اور عقائد اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس لئے کہ انبیاء کرام کی زندگی سراپا یقین وایمان کی پکار ہے، اسی لئے قرآن کریم نے جابجا انبیائے کرام علیہم السلام کے حالات زندگی اور طرز حیات کو پیش فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سابقہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کا مجموعہ اور نمونہ ہے؛ لہٰذا اگر ایک صاحب استعداد شخص آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چھوٹی سے چھوٹی کتاب بھی زیر مطالعہ رکھتا ہے تو اس کا اسلام کے متعلق شک واضطراب میں مبتلا ہونا محال قطعی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزا دنے اپنی کتاب ''تذکرہ'' میں علامہ ابن کثیر کے حوالہ سے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس وصیت کو نقل فرمایا ہے جو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس شخصیت کو فرمائی تھی جس کو اپنے ماہر فن ہونے پر ناز تھا لیکن اس شخصیت کا دل یقین وطمانیت سے خالی اور شک و اوہام کا خانہء خراب بن چکا تھا وہ شیخ علامہ عماد الدین واسطی کی شخصیت تھی۔
شیخ عماد الدین واسطی نے اپنے بیمار دل کی شفا کے لئے بہت سے دارالشفاء کے چکر لگائے؛ لیکن ان کے لیے کسی دارالشفاء کی دوائے دل کارگر ثابت نہیں ہوئی، بالآخر وہ دمشق آئے اور امام ابن تیمیہ کی صحبت نشینی اختیار کی،
شیخ عماد الدین خود بیان فرماتے ہیں کہ جس وقت میں ان کے درس میں حاضر ہوا تو عجیب اتفاق ہواکہ اس وقت امام موصوف اپنے درس میں علم کلام ہی کے متعلق گفتگو فرمارہے تھے کہ جس علم سے میرا دل یقین سے محروم ہواتھا اور جس بیماری کے علاج کے لئے میں حیران وسرگرداں تھا۔
امام موصوف فرمارہے تھے کہ دنیا میں متکلمین وفلاسفہ سے زیادہ مضطرب ومحروم اور اطمنان قلب وسرور روح کی لذت سے یکم قلم ناآشنا اور کوئی گروہ اور جماعت نہیں ہے، اور پھر مشاہیر فلاسفہ قدماء ومتکلمین کی یقین وایمان سے محرومی کو بطور شہادت پیش فرمایا۔
شیخ علامہ عماد الدین واسطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس ایک صحبت ہی میں میرے سارے شکوک وشبہات ختم ہوگئے اور میرے دل نے حلاوت ایقان واطمنان کی لذت کو محسوس کرلیا، میرا دل پکار اٹھا کہ جس دوائے دل کے لئے میں سرگراں وحیران ہوں وہ امام ابن تیمیہ کے دارالشفاء میں موجود ہے۔
جب امام ابن تیمیہ میرے حالات سے واقف ہوئے تو وصیت کی کہ تمام چیزیں چھوڑ کر صرف ''سیرت نبی'' کے مطالعہ اور تدبر وتفکر کو اپنے اوپر لازم کرلو کہ ایمان ویقین کی تمام بیماریوں کے لئے یہی ایک نسخہ شفا کافی ہے۔
چنانچہ میں نے اس وصیت کو حرز جان بنالیا اور جو کچھ پایا اسی وصیت پر عمل کرنے سے پایا بلکہ میں اس وصیت پر عمل کرنے سے دنیا وآخرت کی ہلاکت سے محفوظ ہوگیا۔
غرض کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک ایسی حقیقت جو طبیعت کو جو فلاسفہ ومتکلمین کی صحبتوں سے وادء شک واضطراب میں حیران وسرگراں ہوگئی تھی ان ساری باتوں میں سے ایک بات بھی نہیں کہی جو اور لوگ کہہ سکتے تھے بلکہ صرف یہ وصیت کی کہ سیرت طیبہ کا مطالعہ کرو یہی نسخہ شفا شک کے سارے امراض کا واحد علاج ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ ہر عہد میں بلکہ جب تک دنیا باقی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وحیات مقدسہ کے مطالعہ سے بڑھ کر نوع انسانی کے تمام بیمار دلوں اور بیمار روحوں کا اور کوئی علاج نہیں ہے، قرآن کریم کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو سیرت رسول ہے، دراصل قرآن اور حیات رسول مقصد ہدایت میں ایک ہی چیز ہے، قرآن متن ہے تو سیرت اس کی شرح، قرآن علم ہے اور سیرت اس پر عمل، سیرت رسول ایک مجسم وممثل قرآن تھا جو مدینہ منورہ کی سر زمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا تھا کہ سیرت رسول ہی قرآن ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم نے سیرت رسول کے مطالعہ سے کس قدر بے اعتنائی برتی ہوئی ہے عوام تو درکنار فضلاء مدارس کی ایک بڑی تعداد سیرت رسول کے مطالعہ سے محروم ہے، ہم کیسے مہمان رسول ہیں کہ اپنے مشفق و مہربان کی زندگی وسیرت سے ناواقف ونابلد ہیں!!!