بانہال// شہد کی مکھیوں کو سردیوں سے بچانے کیلئے اس وقت جموں وکشمیر کے سینکڑوں بی کیپر راجستھان میں ہیں لیکن وہاں مقامی فصلوں پر کیڑے مار دوائی کے چھڑکائو سے ہزاروں مکھیاں ہلاک ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ لوگوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا ہے ۔اس کاروبار سے جڑے لوگوں نے جموں وکشمیر اور راجستھان کی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ باقی زندہ مکھیوں کو بچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور انہیں معاوضہ فراہم کیا جائے۔صوبہ جموں میں ضلع رام بن شہد کی پیداوار میں اول نمبر پر ہے اور ضلع کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے سینکڑوں بیروزگار شہد کی مکھیوں کے کاروبار سے جوڑ کر محنت کرکے اپنا روزگار کماتے ہیں۔یہ کاروبار ازل سے ہی سرکاری عدم توجہی کی وجہ سے پچھلے کئی برسوں سے کسمپرسی کے حالات سے دوچار ہے اور حکام بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی رہی ہے۔ اس سال موسم سرما شروع ہوتے ہی ضلع رام بن ، پلوامہ ، شوپیان ،کولگام ، بارہمولہ اور بڈگام کے سینکڑوں بی کیپر شہد کی مکھیوں کی ہزاروں پیٹیوں کو لیکر پنچاب اور راجستھان کی طرف چلے جاتے ہیں، تاکہ سردیوں سے بچا کر شہد کی مکھیوں کی افزائش کی جائے۔ اس سال راجستھان کے تقریباً تمام علاقوں میں مقامی زمینداروں کی طرف سے اپنے کھیتیوں میں لگائی گئی دھنیا اور سرسوں کی فصلوں پرکیڑے مار دوائیوں کا چھڑکائو کیا گیا جس سے شہد کی مکھیوں کے کاروبار سے جڑے لوگوں کو لاکھوں روپئے کے نقصانات کا سامنا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیاں زہر کے اثر سے ہلاک ہوئی ہیں۔ بی کیپرس ایسوسیشن کے صدر فاروق احمد وانی نے کوٹہ راجستھان سے کشمیر عظمی کو فون پر بتایا کہ کیڑے مار ادویات کی بھاری مقدار میں فصلوں پر کئے گئے چھڑکاؤ سے دس ہزار سے زائد شہد کی مکھیوں کی کالنیوں کو نقصان پہنچا ہے اور صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کے شہد سے جڑے سینکڑوں افراد کے علاوہ دیگر ریاستوں سے آئے ساتھیوں کو بھی شدید نقصانات سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ایگریکلچر اور محکمہ ایپیکلچر کو آگاہی پھیلانے کیلئے کیمپ منعقد کرنے چاہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طریقہ کار سے شہد کی مکھیوں کا وجود ہی دنیا سے ختم ہو جائیگا جو انسانی بقایا کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی سرکار اور محکمہ apiculture کی طرف سے یہ کاروبار عدم توجہی کا شکار ہے اور شہد کی مکھیوں کے کاروبار کو ابھی تک نہ لائیو سٹاک کے زمرے میں لایا گیا ہے اور نہ ہی انہیں crop لون اور انشورنس کے فوائد ملتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہر سال لاکھوں روپئے کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ صدر بی کیپرس ایسوسی ایشن فاروق احمد وانی نے جموں و کشمیر اور ریاست راجستھان کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ مدد کیلئے سامنے آئیں اور نقصانات سے دوچار شید کی مکھیوں سے جڑے زمینداروں کو معاوضہ ادا کیا جائے اور اس کاروبار کو لائیو سٹاک اور انشورنس کے ضابطے میں لایا جائے۔