پیری میں ہو وفات یا ہو عالمِ شباب میں
گُزرے حیاتِ ہر بشر اِسی پیچ و تاب میں
قبلہ عرشؔ و حامدیؔ ہم سے تو بِچھڑ گئے
کِس کو گُماں تھا راحتؔ بھی گُزرے گا شِتاب میں
اب دفعتاً شاہبازؔ بھی رحلت سے چار ہوگئے
مطلق نہیں یہ بات تھی خیال اور خواب میں
اے وائے اجل تم سے تو ہم نہ لوہا لے سکے
رہتا نہیں ٹھہرائو کبھی موجۂ سحاب میں
دِل چاک ہوا اور ہے آتش کدہ جِگر مرا
اب سانس میری ڈوب گئی ہے بُوئے تراب میں
بزمِ جہاں کو چھوڑ کر کشتِ فِداؔ کا لعل بھی
بہ رنگِ شفق چھپ گیا ہے کیسے اضطراب میں
مشہور شخصیت تھی تِری ایک معلم کے طور
تم نے حیات صرف کی اسی کارِ ثواب میں
خطۂ پنچال میں دانشوری کا شمس تھا
کُنجِ لحد میں محو ہے اب اپنے حِساب میں
کتنے گِنوں میں آپ کے اوصافِ حمیدہ یہاں
تو گوہرِ نایاب تھا اُردو زباں کے باب میں
جو کچھ لِکھا شہبازؔہے تیرے عُشاقِؔ ہیچ نے
المختصر سب کچھ رقم ہُوا ہے پیچ و تاب میں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469