گزشتہ چند روز سے جموںوکشمیر خاص کر وادی کشمیر میں جس رفتار سے کورونا کے مثبت معاملات سامنے آرہے ہیں،وہ یقینی طور پر پریشان کن ہے۔دو روز قبل ریکارڈ معاملات سامنے آئے جن کی تعداد3سوسے بھی زیادہ تھی۔جب ان کیسوں کا باریک بینی سے ذرا پوسٹ مارٹم کیاجاتا ہے تو ایک پریشان کن صورتحال ابھر کر سامنے آتی ہے ۔حکام کے لئے یہ مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے مریض ہوں لیکن گہرائی سے تجزیہ پریشان کردیتا ہے ۔کورونا اعداد وشمار کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر وادی کا اب کوئی ضلع محفوظ نہیں ہے اور ہر ضلع میں کورونا نے دستک دی ہے ۔دوسرا اور اہم نکتہ جو تجزیہ کے بعد ابھر کرسامنے آتا ہے ،وہ یہ ہے کہ ہمیں قطعی طور لاپر واہی برتنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ یہ گھوم پھر کر واپس آرہا ہے ۔سرینگر انتظامیہ کئی روز تک اس اطمینان میں تھی کہ یہاں اب نئے معاملات سامنے نہیں آرہے ہیں اور عوامی سطح پر بھی اس پر اطمینان کا اظہار کیاجارہاتھا جبکہ عوامی نقل وحمل بھی کافی حد تک بڑھ چکی تھی کیونکہ شاید انتظامیہ کے لوگ سمجھنے لگے تھے کہ کورونا سرینگر سے رخصت ہوچکا ہے لیکن گزشتہ چند روز سے جس طرح مسلسل سرینگرضلع سے نئے معاملات سامنے آرہے ہیں ،وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کورونا کہیں گیا نہیںہے بلکہ یہیں موجود ہے ۔اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی اس نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کردیا ہے ۔ مطلب غرض یہ ہے کہ ابھی کسی بھی علاقہ کوکورونا سے متاثرہ یا کورونا سے آزاد قرار دینا قبل از وقت ہے ۔ابھی یہ وائرس دوبارہ پھیل رہا ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ کب کہاں سے یہ سرنکال لے ۔لہٰذا کسی بھی طور احتیاطی اقدامات نرم کرنے کی گنجائش نہیں ہے بلکہ ہمیں ہمہ وقت محتاط رہناہے۔دنیا کے کئی ممالک سے بھی اس بات کے پختہ ثبوت مل چکے ہیں کہ وہاں کورونا دوبارہ لوٹ کر آچکاہے اور ان ممالک کے مطابق اب اس کی دوسری لہر مزید خطرناک ہے کیونکہ وائرس اب اس ماحول سے ہم آہنگ ہوچکا ہے اور اس کا مدافعتی نظام مزید سخت ہوا ہے جوعوام کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ عوام کے بے پناہ مسائل ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ روزگا رکا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مسلسل نرمیوں کا اعلان کیاگیاتھاتاکہ غریب اور متوسط طبقہ کی روزی روٹی کا کوئی بندوبست ہوسکے لیکن ا سکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم معاش کی فکر میں کوروناکا شکار بن جائیں ۔کورونا آپ کا ایک ایسا دشمن ہے جو نظر نہیں آرہا ہے اور صرف احتیاط ہی آپ کو اس کے قہر سے بچاسکتا ہے ۔اگر حکومت کی جانب سے اعلان شدہ نرمیوں سے ہم استفادہ حاصل کرنا چاہتے ہیںتو بے شک کریں اور یہ ہمارا حق بھی بنتا ہے لیکن جس طرح ہم نے اب اس وائرس کو سرسری لیا ہے ،وہ موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ بلاشبہ ہمیں معمولات زندگی جاری رکھنے ہیں اور دو وقت کی روٹی کا بندو بست بھی کرنا ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم بے پرواہ ہوجائیں اور نہ صرف اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیں بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے سے دوچارکریں۔ اگر اس غیر سنجیدگی نے ہمیں کورونا سے روبرو کروادیا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے ۔بے شک حالات باعث تشویش ہیںلیکن اب بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن لئے اور کورونا کا خوف کھا کر تمام لازمی احتیاطی اقدامات پر عمل کرکے اپنے معمولات جاری رکھے تو شاید ہمیں بہت جلد اس مصیبت سے نجات مل جائے گی لیکن اگر ہم نے اسی لاپرواہی کا مظاہرہ جاری رکھا تو خدا نخواستہ یہ سفر کافی طویل ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی ہلاکت خیز بھی ۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے کوویڈ کے حوالہ سے وضع کردہ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں ۔اس ضمن میں فیس ماسک کا استعمال اور جسمانی دوریوں کا پاس و لحاظ رکھنا لازمی ہے ۔اگر ان دواحتیاطی تدابیر پر ہم عمل کرتے ہیں تو تقریباً سارے مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے اور ہمیں پریشان بھی نہ ہونا پڑے گا لیکن فی الوقت انتظا میہ کو جس طرح فیس ماسک کا استعمال عام کرنے کیلئے جرمانے کرنے پڑرہے ہیں ،وہ قطعی کسی مہذب سماج کیلئے مستحسن قرار نہیں دیاجاسکتا ہے ۔ہمیں حکومت کا انتظار کئے بغیر خود حکومتی اقدامات کا معاون بننا چاہئے کیونکہ ایسا کرکے اصل میں ہم اپنے آپ اور اپنے سماج کو بچا رہے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ لاپرواہی کرکے ہم اپنے لئے نئے خطرات مول لیں ۔اس لئے لازم ہے کہ ہم کاروبارِ جہاں جاری رکھنے کیلئے اپنے آپ میں ہی تبدیلی لائیں اور جس طرز زندگی کا یہ وائرس ہم سے تقاضا کرتا ہے ،ہم وہی طرز زندگی اختیار کریں تاکہ جان بھی رہے اور کارِ جہاں بھی چلتا رہے۔