غلبہ دین کی جدوجہد میں’ تدریج کی حکمت عملی ‘کی اہمیت اور اس کے بنیادی اصولوں کو واضح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:
’’اسلامی نظام زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کر کے حالات کا لحاظ کیے بغیر پورا کا پورا نسخہ اسلام یک بارگی استعمال نہ کر ڈالنا چاہیے بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان ومکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو موخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہو سکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے جس کی ایک نہیں، بیسیوں مثالیں شارع کے اقوال اور طرز عمل میں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ ثانیاً، اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان ومکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہو جائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے اور پھر جو اہم تر ہو اس کی خاطر شرعی نقطہ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کر دینا چاہیے جب تک دونوں پر ایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہو جائے۔۔۔ثالثاً، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ ومتحرک ہوں، وہاں ان سے براہ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے تاکہ زور آور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجائے اس مددگار بنائی جا سکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہو سکیں جن میں ہر مسلمان مجرد اپنی دینی واخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر بلا لحاظ نسل ونسب ووطن سربراہی کے مقام پر آسکے۔۔۔رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہو سکتا تو میں صاف عرض کروں گا کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے کیونکہ اس کا تو سارا نشو وارتقاء ہی اس بنیاد پر ہوا ہے کہ شارع کے زمانے میں جو حوادث اور معاملات پیش آئے تھے، ان میں شارع کے احکام اور تصرفات اور طرز عمل کا گہرا مطالعہ کر کے وہ اصول اخذ کیے جائیں جو شارع کے بعد پیش آنے والے حوادث ومعاملات پر منطبق ہو سکتے ہوں۔ اس کا دروازہ بند ہو جائے تو پھر فقہ اسلامی صرف انھی حوادث ومعاملات کے لیے رہ جائے گی جو شارع کے زمانے میں پیش آئے تھے۔ بعد کے نئے حالات میں ہم بالکل بے بس ہوں گے۔‘‘ (تفہیم الاحادیث،ص۴۵۴۔۴۵۵)
اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں او ربیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین وقانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:
’’فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔ اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟ میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا ۔۔۔آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ (تصریحات ص ۱۹۱۔۱۹۲)
مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میںآپ نے فرمایا:
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آرہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میںہیں۔‘‘ (ایضََاص۲۷۴)
’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔۔۔۔ یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (ایضََاص۹۲)
مولاناعمارخان ناصراس شدت پسندی کے بیانئے کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت وضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے، جبکہ معاصر جہادی تحریکوں کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود جہادی عناصر نے بحیثیت مجموعی تشدد اور تصادم کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوئوں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔‘‘(بشکریہ دلیل ڈاٹ کام،پاکستان)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولاناآخرکاربشرتھے۔اُن کی فکری،علمی عظمت کے باوجودوہ اختلاف سے مستثنیٰ نہیں۔ذیل میںان کی فکراورجماعت کے فہمِ دین اورطریقہ کارکے چندنقائص رقمطرازکئے جاتے ہیں:
۱۔ ’اقامتِ دین‘کوامت مسلمہ کا’فریضہ‘ قراردینا،فرائض اسلام میںایک ایسا اضافہ ہے جس کی واضح دلیل قرآن وسنت میںنہیںملتی۔رسول اللہﷺکے حوالے سے جن قرآنی آیات میںیہ کہاگیاہے کہ ان کی بعثت کامقصدغلبہ دین واظہارِدین ہے،مولانانے ان آیات سے استنباط کرکے ’حکومتِ الٰہیہ‘کے قیام کوفرض قراردیاجوکہ بقول مولاناوحیدالدین خان اسلاف کی پوری علمی روایت کے خلاف ہے۔مولاناخان صاحب اورمولاناابوالحسن ندوی مرحوم نے تنقیدکرکے بتایاکہ جن آیات اوراصطلاحات کی بنیادپریہ نظریہ قائم کیاگیاہے،وہ آیات کسی طوریہ بات بیان نہیںکرتیں۔
۲۔ جماعت میںوعظ وتذکیرکاپہلودب گیاہے۔روحانی کیف وسروروہاںعنقاء ہے۔یہ جماعت کے نصب العین کااساسی عنصرنہ بن سکا ۔ کارکنان کی روحانی تربیت کی طرف وہ توجہ نہیںدی گئی جس کامولانامودودی مختلف مواقع پراپنی تقریروںاورتحریروںمیںعندیہ دے چکے تھے۔
۳۔ جماعت پرسیاست کاغلبہ دیکھنے کوملتاہے۔دعوت کے میدان میںجس صبر،تحمل اورتواترکی ضرورت تھی ،کہیںنہ کہیںوہ صفات ہاتھ سے چھوٹ گئے ہیں۔ایک صالح معاشرہ تعمیرکرنے کے لئے اورپھراسلام کی حکمرانی لانے کے لئے جس طریقِ کارکی ضرورت تھی وہ ابتداسے ہی مفقود ہے ۔ غیر اسلامی نظریات نے پہلے صدیوںعوام کے اندررہ کردلفشانی سے کام کیا۔اپنی بنیادیںمضبوط کیں۔سماجی خدمات کرکے گھرگھر،قریہ قریہ اپناپیغام پہنچایا۔مدّتوںاپنے ہم خیال افرادکی تربیت کی،تب جاکے آج وہ سپیدوسیاہ کے’ مالک‘ بن بیٹھے ہیں۔جماعت نے بھی خدمتِ خلق میںاپنالوہامنوایا لیکن
اپنی بنیادیںمضبوط کرنے میںوہ ناکام رہے۔مولانامودودی کے نظریات نے اگرچہ مسلمانوںکے مذہبی ،فکری طبقات کو فتح کرلیاہے،تاہم حقیقت یہ ہے کہ عوام میںان کی فکرکوکوئی بہت زیادہ مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔کوئی فکرجب عوامی تحریک میںتبدیل ہوجاتی ہے توانقلاب لاتی ہے۔جماعت وہ کارنامہ انجام نہ دے سکی۔
۴۔ نصب العین کے حصول کے لئے ’تحریک ‘کسی ایک ڈگرپر’ساکن‘رہ کرکام کرنے کانام نہیںہے بلکہ تجربات وطریقِ کارجب ناکام ہوں تو اُسے اُس سنگِ راہ سے ہزارچشمے پُھوٹنے کاگُن بھی آناچاہیے۔تحریک نام ہی ہے ’تحرُک وتبدّل‘کا۔قوی علمی وعقلی دلائل سے جب کسی کے دعوے کو ردّ کیاجائے توشریفانہ طرزعمل یہ ہے کہ اُن اختلافات کاعلمی جواب دیاجائے یاپھراُس تنقیدکے سامنے سپرڈال کر اپنے نصب العین میںتبدیلی لائی جائے۔
۵۔ مولانامودودی نے جس جانفشانی اورعقلی دلائل کے ساتھ اپنے نظرئے کوپیش کیا۔جس محنتِ شاقہ اورژرف نگاہی سے انہوںنے باطل نظریات کے تاروپودکھولے،وہ محنت اب جماعت میںعنقاء ہے۔مولانامودودی کے بعدوہ علمی شخصیت جماعت پیداکرنے میںناکام رہی۔مولاناکے دورمیںان کی تحریرکا’سحر‘چھایاہواتھا۔بڑے اشتیاق سے عوام وخواص مولاناکی تحریرکے انتظار میں رہتے تھے لیکن اب وہ علمی ذوق وشوق قصہ پارینہ بن چکاہے۔
۶۔ مولانامودودی کی تشریح دین میںاسلام کے عبادتی نظام پراتنی توجہ نہیںملتی جتنی کہ اس کے سیاسی نظام پرہے۔حالانکہ اسلام کے عبادتی نظام کی غرض وغایت انسانی نفوس کاتذکیہ ہے۔اس مقصدکوحاصل کئے بناارضی غلبہ واقتداربے مقصداورعدلِ اجتماعی کے نظام کاقیام ناممکن ہے۔
۷۔ جماعت میںایک نقص دعوت کی غیرمنصوص ترتیب ہے۔قرآن کے مطالعہ سے انبیاء ؑکی دعوت کی جومنصوس ترتیب معلوم ہوتی ہے اس میںایمان کواوّلین درجہ حاصل ہے۔اس کے بعدتقوٰی واحسان کے درجات آتے ہیں۔ریاست وحکومت کادرجہ سب سے آخرمیںآتاہے وہ بھی حالت وظروف کے ساتھ مشروط ہے نہ کہ علی الاطلاق مطلوب۔انبیاء کی پوری تاریخ میںصرف گنے چُنے رسل علیہم السّلام سریرِسلطنت پرمتمکن رہے۔رسول کی حیثیت سے یہ ان کی دعوت کاتقاضاتھا،نہ کہ ایسی سُنت جوکہ تاقیامت مسلمانوںپر’فرض‘ہو۔۔۔۔(جاری)