۳۔ جاویداحمدغامدی :
پاکستان کی سرزمین علمی وفکری شخصیات فراہم کرنے کے اعتبارسے کبھی بنجرنہیںرہی۔ان نابغہ روزگارشخصیات میںایک جاویداحمدغامدی صاحب بھی ہیں۔غامدی صاحب کی شخصیت کی نرمی،سادگی،علمیت،منطقیت پُرکشش ہے۔قاری ہویاسامعی غامدی صاحب ’کششِ ثقل‘کی طرح اُن کواپنی طرف کھینچ ہی لیتے ہیں۔لیکن فی الوقت وہ ایک ایسے ’شجرِممنوعہ‘تصورکئے جاتے ہیںجن کی صحبت،گفتگو،تحریرات سے کچھ لوگوںکو’فتنہ‘کاپھل ہی ملنے کاگمان ہوتاہے۔علم وفکر کی راہ میںیہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ہماری تاریخ کے کئی ’اوراق‘ایسے اہلِ علموںسے بھرے پڑے ہیںجن کی مخالفت یاتنقیدشدّت سے کی گئی۔ دورِ حاضرمیں غامدی صاحب بھی ان میںسے ایک ہیں۔خطاونسیان ،تنقیدواختلاف سے غیرِنبی کومفرنہیں۔تنقیدذہنی اُفق کووسیع کرتی ہے۔یہ ایک علمی تحفہ ہے۔تنقیداوراختلاف سے انسان خودکودریافت کرسکتاہے لیکن تنقیدواختلاف کے بھی کچھ اصول ہیں،کوئی اخلاقیات ہیںجن کامہذب معاشرے میںخیال رکھنابہت ضروری ہے۔ہم تذلیل کوبھی اختلاف ِرائے کانام دیتے ہیں۔سرِعام بے عزت کرنے کوتنقیدکہتے ہیں۔جھوٹ منسوب کرکے اورسیاق وسباق سے کلام کوہٹاکرکسی کومطعون کرنے کو’علمی جواب‘کا نام دیتے ہیں۔فکرونظرکی دنیامیںکوئی بات حرفِ آخرنہیںہوتی۔یہ غوروفکرکامسلسل عمل ہے جوکسی سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔اس لئے امام ابن تیمیہؒ ہوںیاامام غزالیؒ،شاہ ولی اللہ ؒہوںیامولانامحمدالیاسؒ،مولانامودودی ؒہوںیاجاویداحمد غامدی،ان میںسے کوئی معصوم ہے اورنہ تنقیدواختلاف سے بالاتر۔۔۔
جاوید احمد غامدی ۱۹۵۱ء میں پنجاب کے ایک ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ایک مقامی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ ۱۹۶۷ء میں لاہور آگئے۔انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہورسے۱۹۷۲ء میں انگریزی ادب میں بی۔ اے آنرز کیا اور مختلف اساتذہ اور عالموں سے اپنی ابتدائی زندگی میں روایتی انداز میں اسلامی علوم پڑھے۔ ۱۹۷۲ء میں آپ مولانا امین احسن اصلاحی ؒکی شاگردی میں آگئے، جنھوں نے ان کی زندگی پر گہرا اثرڈالا۔ غامدی صاحب کئی سال تک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒکے ساتھ بھی منسلک رہے اورکچھ عرصہ جماعتِ اسلامی پاکستان کے رکن بھی تھے۔دس سال سے زیادہ (۱۹۷۹ء تا ۱۹۹۱ء) عرصے تک سول سروسز اکیڈمی لاہور میں علوم اسلامیہ کی تدریس کی۔(مقامات ازجاویداحمدغامدی)
جاویداحمدغامدی صاحب نے قرآن مجید، اسلامی قانون اور اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور ان موضوعات پر کئی لیکچر دیے۔ آپ ادارہ ’المورد‘کے بانی اور صدر ہیں اور اردو ماہنامہ’ اشراق‘ کے مدیرِاعلٰی بھی ہیں۔ غامدی صاحب باقاعدگی سے مختلف ٹی وی چینلزپر اسلام اور دور حاضر کے موجودہ مسائل پرلوگوں کی آگہی کے لیے گفتگو کرتے ہیں۔ اُن کی گفتگومیںدلائل ومنطق ناظرین وسامعین کومتاثرکرتے ہیں۔غامدی صاحب شیریںمقالی اورتہذیب وشائستگی کے ساتھ نقادوںاورمعترضین سے مخاطب ہوتے ہیں۔
غامدی صاحب کی فکر پر اپنے دوجلیل القدر پیش رو علما ء امام حمید الدین فراہیؒ اورمولانا امین احسن اصلاحیؒ کے فکر کی گہری چھاپ ہے۔ تاہم اس ضمن میں انھوں نے کئی انفرادی تحقیقات بھی کی ہیں۔وہ علامہ شبلی نعمانیؒکی فکرسے بھی متاثرہیںاورجس ’جماعت‘کی علامہ شبلیؔؒ نے بنارکھی ،اُس کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب رقمطرازہیں:
’’شبلیؔان دونوںکے مقابلے میںایک تیسری جماعت کے بانی ہوئے۔اس جماعت کے دوبنیادی اصول تھے:ایک یہ کہ ہمارے لئے ترقی یہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹتے چلے جائیں،یہاںتک کہ اس دورمیںپہنچ جائیںجب قرآن اتررہاتھااورخداکاآخری پیغمبرخودانسانوںسے مخاطب تھااوردوسرے یہ کہ خودقدیم کی ضرورت ہے کہ ہم جدیدسے بھی اسی طرح آشنارہے،جس طرح قدیم سے ہماری آشنائی ہے۔سیدسلیمان ندویؒ،ابوالکلام آزادؒ،ابوالاعلٰی مودودیؒ،حمیدالدّین فراہیؒ،امین احسن اصلاحیؒ،یہ سب اسی جماعت کے اکابرہیں۔میںاسے ’دبستانِ شبلی‘کہتاہوںاقبالؒ بھی زیادہ تراسی دبستان سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘(ایضََا ص۶۴)
اپنے اساتذہ کے علمی فکر کے عکس اوران کی اپنی منفرد تحقیقات ،دونوں کو ان کے قرآن مجید کے ترجمے’’البیان‘‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ترجمہ قاری کو قرآن کی کلاسیکی زبان کے قریب لے جاتا ہے جس میں حد درجہ ایجاز پایا جاتا ہے۔ الفاظ اور مفاہیم جو آپ سے آپ واضح ہوتے ہیں، اس کو قاری کے فہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور کلام سے حذف کر دیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب نے کوشش کی ہے کہ ترجمہ میں ان کی رعایت کی جائے اور مقدرات اور محذوفات کو کھولا جائے تاکہ عبارت کا مفہوم کھل کر سامنے آ جائے۔قاری ترجمہ پڑھتے ہوئے سیاق وسباق کوخوب اچھے سے سمجھ لیتاہے۔’البیان‘مختصرحواشی کے ساتھ نظمِ کلام کی رعایت سے تراجم کی تاریخ میںپہلااردوترجمئہ قرآن ہے۔
’دین‘کی تعریف غامدی صاحب ان الفاظ میںکرتے ہیں:
’دین اللہ تعالٰی کی ہدایت ہے جواس نے پہلے انسان کی فطرت میںالہام فرمائی اوراس کے بعداُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروںکی وساطت سے انسان کودی ہے۔اس سلسلے کے آخری پیغمبرمحمدﷺہیں۔چنانچہ دین کاتنہاماخذاس زمین پراب محمدﷺکی ذات والاصفات ہے۔یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کواُن کے پروردگارکی ہدایت میسرہوسکتی اوریہ صرف انہی کامقام ہے کہ اپنے قول وفعل اور تقریروتصویب سے وہ جس چیزکودین قراردیں،وہی اب رہتی دنیاتک دین قرارپائے۔‘(میزان۔ص۱۳)
غامدی صاحب کا ایک اورمنفرد کام دین اسلام کے مشتملات کی تقسیم ہے۔ ان کے مطابق قرآن مجید نے خود کو باعتبارمشتملات دو بڑے عنوانات میں تقسیم کیا ہے: ’الحکمۃ‘ اور’الشریعۃ‘۔ غامدی صاحب کے مطابق ان میں سے مقدم الذکر کا تعلق’ ایمان واخلاق‘ کے مباحث سے ہے اور مؤخر الذکر کا تعلق ’قانون ‘کے مباحث سے ہے۔ ’الحکمۃ‘ اور ’الشریعۃ‘ کو غامدی صاحب نے مزید ذیلی عنوانات میں تقسیم کیا ہے۔ ’الحکمۃ‘ ’ایمانیات ‘اور ’اخلاقیات‘کے دو عنوانات پر مشتمل ہے، جبکہ ’الشریعۃ‘ کو انھوں نے دس عنوانات میں تقسیم کیا ہے ، یعنی :قانون عبادات، قانون معاشرت، قانون سیاست، قانون معیشت، قانون دعوت، قانون جہاد، حدودو تعزیرات، خورو نوش، رسوم وآداب اورقسم اور کفارۃقسم۔ ان عنوانات کے ذیل میں غامدی صاحب نے بہت سے نئے پہلوؤں کو دریافت کیا ہے۔ مثال کے طور پر ذریت ابراہیم کی دعوت ، ارتداد کی سزا، عورت کی گواہی اور دیت ، اختلاط مردوزن کے آداب ، غلامی،مسلم شہریت کے شرائط، قانون میراث اور جہاد میں عام اور خاص احکام کے بارے میں ان کی آرا قارئین کو کچھ نئے پہلوؤں کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ غامدی صاحب کی ایک اور اہم خدمت علم اصول سے متعلق ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ’’اصول ومبادی‘‘ میں فہم دین کے اصولوں کو مرتب کیا ہے۔ یہ اصول قرآن ، سنت اور حدیث کی تفہیم میں معاون ہیں۔(میزان ازجاویداحمدغامدی)
غامدی صاحب کا ایک اہم علمی کام یہ ہے کہ انھوں نے ’شریعت‘ کو’ فقہ‘ سے الگ کیا ہے۔ان کوبالعموم ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے۔ پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جبکہ دوسری انسانی کاوش کا نتیجہ۔ چنانچہ ان دونوں میں فرق ملحوظ رکھنا ایک ناگزیر امرہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں شریعت کو اسلام کے ماخذ سے مستنبط کیا ہے۔
ان کی ایک اور اہم علمی کاوش’ سنت ‘کے تصور کی تعیین اورتشریح ہے۔ ’سنت‘ کو انھوں نے ’حدیث‘ سے الگ چیز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک’ سنت‘ قرآن ہی کی طرح مستقل بالذات دین کا ماخذ ہے اور امت کے اجماع اور عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ قرآن ہی کی طرح مستند ہے۔ ’احادیث‘ البتہ قرآن و سنت میں موجود دین کی تفہیم و تبیین کرتی ہیں اور اس دین پر عمل کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ ان میں مستقل بالذات دین نہیں پایا جاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے حاصل کردہ علم درجہ یقین تک نہیں پہنچتا۔ تعین سنت کے اصولوں کی مدد سے انھوں نے سنن کی فہرست مرتب کی ہے۔(ایضََا ص۵۷۔۶۵)
غامدی صاحب نے دین کے بنیادی مباحث اور اصطلاحات کو اپنے مضمون ’دین حق‘ میں بیان کیا ہے۔ یہ تصور دین کی ایک مکمل تعبیر ہے، جو دوسری دو تعبیرات (تصوف کی تعبیر اور جہادی تعبیر)سے بالکل الگ ایک تیسری تعبیر ہے جو دراصل سلف صحابہ کی نمائندگی کرتی ہے۔(ایضََاص۶۶۔۷۸)
انسان طبعََامعاشرت پسندہے۔تمدن کو سوئِ استعمال سے بچانے کے لئے وہ نظمِ اجتماعی تخلیق کرتاہے تاکہ اس کے ارادہ واختیارکو سحیح رخ ملے۔اس اجتماعیت کوصالح بنیادوںپراستوارکرنے کے لئے انسان کوجس امرکاخاص خیال رکھناہے اس کی تشریح کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
’عقل کاتقاضاہے کہ اس دنیامیںحکومت کے بغیرکسی معاشرے اورتمدن کاخواب دیکھنے کے بجائے وہ اپنے لئے ایک ایسامعاہدئہ عمرانی وجودمیں لانے کی کوشش کرے جونظمِ اجتماعی کاتزکیہ کرکے اُس کے لئے ایک صالح حکومت کی بنیادفراہم کرسکے۔‘(میزان۔ص۴۸۱)
قانونِ سیاست کے مباحث جوقرآن اوررسول اللہ ﷺکے وساطت سے ہمیںپہنچے ہیں،ان کی تفصیلات غامدی صاحب نے بڑے شرح وبسط کے ساتھ رقم کی ہیں۔قرآن مجیدکی نصوص کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’یہ حکم اس وقت دیاگیاجب قرآن نازل ہورہاتھا،رسول اللہﷺبنفسِ نفیس مسلمانوںکے درمیان موجودتھے اوروہ اپنے نزاعات کے لئے جب چاہتے،آپﷺکی طرف رجوع کرسکتے تھے۔لیکن صاف واضح ہے کہ اللہ ورسول کی یہ حیثیت ابدی ہے لہٰذاجن معاملات میںبھی کوئی حکم انہوںنے ہمیشہ کے لئے دے دیاہے،اُن میںمسلمانوںکے اولی الامرکو،خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوںیاپارلیمان کے ارکان،اب قیامت تک اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کاحق حاصل نہیںہے۔‘(میزان۔ص۴۸۲)
علم وتحقیق میںگرچہ موصوف ایک مقام رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ و ہ اردوادب سے بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ان کے قلم میںبلاکی روانی وچاشنی ہے۔ایسے انشاء پردازجن کی نگارشات قاری کومسحورکئے بنانہیںرہتی۔غامدی صاحب کہنہ مشق شاعربھی ہیں اسلئے ان کی تحریروںمیںزبان وبیان کی قدرت ،افکاروخیالات کی ندرت،مضامین کاتنوع،موضوعات کی رنگارنگی،موادکی معنویت اوراسلوب کی دلکشی پائی جاتی ہے۔ان کے جملوںکی ساخت ، زبان کی سلاست ،لہجے کی دلکشی اورالفاظ کی رعنائی میںایک تاثیرموجودہے۔ادب پارہ کی تخلیق ہویاعلمی موضوعات کی ترسیل،ان کاقلم قاری کاہاتھ پکڑکر اپنی مشائیت پرمجبورکردیتاہے۔’قانونِ معیشت‘کے عنوان کے تحت اسلام کا تزکیہ معیشت کافلسفہ واضح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’یہاںہرشخص کاایک کردارہے اورکوئی بھی دوسروںسے بے نیازہوکرزندہ نہیںرہ سکتا۔عالم کے پروردگارنے یہاںہرشخص کی ذہانت ،صلاحیت ، ذوق ورجحان اورذرائع ووسائل میںبڑاتفاوت رکھاہے۔چنانچہ اس تفاوت کے نتیجے میںجومعاشرہ وجودمیںآتاہے،اس میںاگرایک طرف وہ عالم اور حکیم پیداہوتے ہیںجن کی دانش سے دنیاروشنی حاصل کرتی ہے؛وہ مصنف پیداہوتے ہیںجن کاقلم لفظ ومعنی کے رشتوںکو حیات ابدی عطاکرتا ہے؛وہ محقق پیداہوتے ہیںجن کے نوادرتحقیق پرزمانہ داددیتاہے؛وہ لیڈرپیداہوتے ہیںجن کی تدبیروسیاست سے حیات اجتماعی کے عقدے کھلتے ہیں؛وہ مصلح پیدا ہوتے ہیںجن کی سعی وجہدسے انسانیت خوداپناشعورحاصل کرتی ہے اوروہ حکمران پیداہوتے ہیںجن کاعزم واستقلال تاریخ کارخ بدل دیتاہے تودوسری طرف وہ مزدوراوردہقان اوروہ خادم اورقلی اورخاک روب بھی پیداہوتے ہیںجن کی محنت سے کلیںمعجزے دکھاتی،مٹی سونااگلتی،چولھے لذتِ کام ودہن کاسامان پیداکرتے،گھرچاندی کی طرح چمکتے ،راستے پائوںلینے کے لئے بے تاب نظرآتے،عمارتیںآسمان کی خبرلاتی اورغلاظتیںصبح دم اپنابسترسمیٹ لیتی ہیں۔‘(میزان۔ص۴۹۶)
غرض کم وبیش چالیس سالہ مطالعہ وتحقیق کے بعد جاویداحمدغامدی صاحب نے اسلام کوجوسمجھاہے،موصوف نے اپناوہ فہم شرح وبسط،علمی ومنطقی دلائل سے اپنی کتاب’میزان‘میںثبت کیاہے۔اُن کی ایک اورکتاب’برھان‘معاصر علوم،نظریات وافکار پرتنقیداوراِن کے تجزئے پرمبنی ہے اور’مقامات‘اُن
کی ذاتی زندگی کے مختصرکوائف،مذہبی اورادبی مضامین کامجموعہ ہے۔(جاری)
رابطہ۔مرکزبرائے تحقیق وپالیسی مطالعات،بارہمولہ کشمیر