پیغمبر ِ اسلام حضرت محمدﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے ’’بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلیٰ خمسٍ‘‘یعنی دینِ اسلام کی بنیاد پانچ چیزو ں پر قائم ہے۔ان میں سے ایک رمضان کا روزہ (صوم رمضان)بھی ہے۔گویا کہ ایک مسلمان کا دین تکمیل کو پہنچ ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ روزہ کی فرضیت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا اہتمام بھی نہ کرتاہو۔’’الصّوم‘‘کے لغوی معنی ہے کام سے رکنا۔لیکن شریعت کی اصطلاح میں اس لفظ کا اطلاق طلوعِ فجرسے لے کر غروبِ آفتاب تک دن بھر کھانے پینے سے رکنا اور فحش گوئی ‘جھوٹ ‘مباشرت وغیرہ سے دور رہنے پر ہوتا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے حجۃ اللّٰہ البالغہ میں بہت ہی عمدہ بات کہی ہے کہ انسان کی طبیعت باغی ہوتی ہے اور انسان کو بغاوت پر اکساتی ہے ‘اس باغی طبیعت پر لگام کسنے کے لئے روزہ ایک بہترین بلکہ کارآمد ہتھیار ہے۱؎ ۔چنانچہ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جو کوئی نکاح کرنا چاہتا ہے لیکن استطاعت نہیں رکھتا اُسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے تاکہ گناہ کی طرف سے اُس کا دھیان ہٹ جائے۲؎۔
روزہ کی فرضیت نصِ قرآنی سے ثابت ہے۔اور ہربالغ ‘عاقل‘صحت مند اور مقیم پر پورے خلوص اور یقین کے ساتھ اس کا اہتمام کرنا فرضِ عین ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی اَلَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو‘تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا(فرض کردیا)گیاہے۔جیسے اُن لوگوں پر لکھا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم بچ جائو‘‘۔سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن کی مشہور ترین آیات میں سے ہے۔ اس میں صیغہ خطاب ایمان والوں کی طرف ہے ‘اس ضمن میں مجھے حسن بصریؒ کا قول یاد آرہاہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن میں ایمان والوں سے خطاب کیا جائے تو اسے غور سے سنا کرو کیونکہ اس خطاب میں ایمان والوں کو کسی چیز سے روکا جاتاہے یا کسی چیز کا حکم دیاجاتا ہے۳؎۔ مذکورہ آیت میں چونکہ روزوں کا حکم دیا گیا ہے‘لیکن ساتھ ہی اس میں روزوں کا مقصد بھی بتادیاگیا ۔اور یہی اس آیت کا اہم ترین پہلو ہے کیونکہ حصولِ مقصد کے بغیرانسان کا ہر عمل ضائع ہے ۔ اللہ تعلی فرماتا ہے کہ جو لوگ تم سے پہلے تھے اُن پر بھی روزہ رکھنا فرض کیاگیاتھا اور تم پر بھی فرض کیاگیاہے تاکہ تم لوگ متّقی بنو۔گویا کہ روزہ ہر امت کے لئے حصولِ تقویٰ کاذریعہ رہاہے۔
تقویٰ کیا ہے
تقویٰ کے لغوی معنی بچنے کے ہیں۔ جیسا کہ سورۃالبقرہ کی دوسری آیت میں یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے۔’’فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ بچنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ہے(فَاِ نْ لَّمْ تَفْعَلُواوَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوْ ا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْ دُھَا النَّاسَ وَالْحِجَارَۃُ)’’پھراگرتم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کروگے تو اُس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘ (البقرہ۔24)۔چنانچہ ’’تقویٰ‘‘کا لفظ ڈرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اللہ تعلی کا ارشاد ہے(یَااَیُّھَاالَّذِیْنِ اٰمَنُوْا التَّقُوااللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبٰو ا اِنْ کُنْتُم مُّوْمِنِیْنَ )’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ‘اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی رہ گیاہے اُسے چھوڑدو اگر تم مومن ہو‘‘(البقرہ۔278)۔ابو نعمان سیف اللہ خالد اس لفظ پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔’’اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا یعنی متقی وہ شخص ہے جو نہ صرف حرام چیزوں کو چھوڑدے ‘بلکہ اُن چیزوں کو بھی چھوڑدے جن کا حرام ہونا یقینی نہیں‘بلکہ مشکوک ہو۔ جب تک کوئی شخص شک و شبہ والی چیزوں کو نہیں چھوڑتا‘ متقی نہیں کہلا سکتااور نہ وہ اپنا دین محفوظ رکھ کر نجات حاصل کرسکتا ہے۔‘‘(تفسیردعوت القرآن)۔
مختصر یہ کہ اللہ کے خوف کے ساتھ اپنے نفس کو ہر طرح کی برائی اورگمراہی سے بچانا تقویٰ ہے۔ اور رمضان کا پورا مہینہ حصولِ تقویٰ کا مہینہ ہے۔جس میں انسان پر رشدوہدایت کی مختلف راہیں کھلتی ہیں ۔
روزہ اور احکامِ الٰہی
روزہ سے متعلق احکامِ الٰہی کے ضمن میں سورہ البقرہ کا تئیسواں رکوع(23)کافی اہم ہے۔بلکہ پورے قرآنِ مجید میں یہ ایک ہی رکوع ہے جس میں روزہ کے احکام جامعیّت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔اِس رکوع میں کُل چھے آیاتِ مبارکہ ہیں‘آیت نمبر 183سے لے کر آیت نمبر 188تک۔شروع میں جو آیت آئی تھی وہ بھی اصل میں اسی رکوع میں شامل ہے۔’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو!تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے‘جیسے اُں لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے۔تاکہ تم بچ جائو۔گنے ہوئے چند دنوں میں۔پھر تم میں سے جو بیمار ہو ‘یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں اِن پر فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے۔پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اُس کے لئے بہترہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اُتارا گیا جو لوگوں کے لئے سراسر ہدایت ہے‘اورہدایت کی اور (حق وباطل میں ) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں۔تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہووہ اس کا روزہ رکھے ‘جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اللہ تمہارے ساتھ آسانی کاارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔اور تاکہ تم گنتی پوری کرواور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو‘اس پر جو اُس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں‘تو بے شک میں قریب ہوں‘میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتاہے۔تولازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔تمہارے لئے روزوں کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرناحلال کردیا گیا ہے‘وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم اُن کے لئے لباس ہو۔اللہ نے جان لیا کہ بے شک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمہیں معاف کردیا‘تواب اُن سے مباشرت کرواور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھاہے۔اور کھائواور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے سیاہ دھاگے سے سفیددھاگافجرکاخوب ظاہر ہوجائے۔پھر روزے کو رات تک پورا کرواور اُن سے مباشرت مت کروجب کہ تم مسجدوںمیں معتکف ہو۔یہ اللہ کی حدیں ہیں‘سو اِن کے قریب نہ جائو۔اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لئے کھول کر بیان کرتاہے‘تاکہ وہ بچ جائیں۔اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھائو اور نہ انہیں حاکموں کی طرف لے جائوتاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھاجائو۔‘‘(آیات183۔188؍ترجمہ عبدالسّلام بن محمد)۔اِن آیاتِ مبارکہ میں روزہ کے مختلف احکام و مسائل کابیان ہوا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عوشوراء کا روزہ رکھا جاتا تھا۔پھر جب ان آیات کا نزول ہواتو یومِ عوشوراء کا روزہ منسوخ ہوگیا۔عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایام ِجاہلیت میں ہم عوشوراء کا روزہ رکھتے لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس کا جی چاہے عوشوراء کا روزے رکھے اور جس کا جی چاہے وہ نہ رکھے(البخاری؍4501)۔عوشوراء کا روزہ پہلے واجب تھا لیکن رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عوشوراء کا روزہ منسوخ ہوگیا لیکن‘اس کی فضیلت اور استحباب (مستحب ہونا)اب بھی باقی ہے۴؎۔
گنتی کے چند دن
اللہ تعلی نے فرمایا’’گنے ہوئے چند دنوں میں۔پھر تم میں سے جو بیمار ہو ‘یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں اِن پر فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے۔پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اُس کے لئے بہترہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو‘‘۔روزہ گنے ہوئے چند دن ہیں(اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ)۔اس آیت سے متعلق کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ اس میں رمضان کے روزوں کا نہیں بلکہ ’’ایامِ بِیض‘‘کے روزوںکا ذکر ہے۔ایام بیض سے مراد قمری مہینوں کی تیرھویں‘چودھویں اور پندرھویں تاریخیں ہے‘رسول اللہ ؐ ان ایام میں روزہ رکھتے تھے۔امام فخرالدین رازیؒنے تفسیرِ کبیر میں یہی موقف اختیار کیاہے۔جمہور علماء کے نزدیک البتہ ’’اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ‘‘ میں رمضان کے روزوں کا ہی بیان ہے۔بہرحال اللہ تعلی مزید فرماتے ہے{فَمَنْ کَانَ مِنْ کُم مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ}’’پھر تم میں سے جو بیمار ہو ‘یا کسی سفر پر ہوتو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے‘‘۔یعنی رمضان میں اگر کوئی شخص بیمار ہو یا کسی ضروری سفر پر ہو تواللہ تعلی نے اُسے چھوٹ دے دی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے‘پھر جب وہ صحت یاب ہوجائے یاسفر سے لوٹ کر آئے تو اس پر لازم ہے کہ وہ رمضان کے بعد اُن چھوٹے ہوئے دنوں کی گنتی پوری کرے۔ مزید برآں اس آیت میں آگے جو حکم دیاگیا ہے اُس سے متعلق یاد رکھئے کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا ۔اللہ تعلی فرماتا ہے {وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْ یَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ}’’اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں اِن پر فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے۔‘‘جولوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اُن کو ابتداء اسلام میں اختیار تھا ‘وہ چاہتے تو روزہ رکھتے اور نہ چاہتے تو نہ رکھتے ۵؎۔لیکن اس کی جگہ انہیں ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلانا پڑتا تھا۔ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا ۔حضرت عبداللہ ابنِ عمرؓکہتے ہیں’’ھِیَ مَنْسُوْخۃٌ‘‘یہ آیت منسوخ ہے(بخاری؍4506)۔اسی طرح سلمہ بن اکوعؓ بھی اس آیت کو منسوخ قرار دیتے ہیں(ایضًا؍4507)۔ حضر ت عبد اللہ ابنِ عباسؓکی ایک روایت سے البتہ کئی لوگوں کو شبہ گزراہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے‘حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں(لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَۃٍ ھُوَالشّیْخُ الْکَبِیْرُ وَالْمَرْئَ ۃُ الْکَبِیْرُ)‘‘یعنی یہ آیت منسوخ نہیں ہے اس سے مراد بہت بوڑھاآدمی اور بہت بوڑھی عورت ہے(بخاری؍4505)۔ لیکن میرے نزد یک ا بنِ عباسؓ کا یہ قول اس اعتبار سے درست ہے کہ انہوں نے اسے بوڑھے آدمی اور بوڑھی عورت کے لئے مختص کردیا ہے جبکہ عموم کے اعتبار سے اُن کے نزدیک بھی یہ حکم منسوخ ہی ہے(واللّٰہ اعلم)۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک ؓ جب بوڑھاپے کو پہنچے تو ضعف کی وجہ سے اُن میں روزہ رکھنے کی سکت نہ رہی تووہؓ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلاتے تھے یااسی طرح ابنِ ابی لیلیٰؒ فرماتے ہیں کہ میں رمضان میں عطاؒکے یہاں گیاتودیکھاکہ عطاؒ کھانا کھارہے ہیںاور مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ ابن ِ عباس ؓ کاقول ہے کہ اس آیت(وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْ یَۃٌ طَعَامُ مِسْکینِ) میں بہت زیادہ عمر رسیدہ اور بے طاقت اشخاص لے لئے حکم ہے۶؎۔چنانچہ امام بخاریؒ اور امام شافعیؒکاموقف بھی یہی ہے کہ اس آیت میں عمررسیدہ اور ضعیف لوگوں کے لئے روزہ کے بدلے کفارہ دینے کا حکم موجود ہے۔ کفارہ دینے میںالبتہ کئی حضرات نے اختلاف بھی ظاہر کیا ہے ۔تفسیر ابن کثیر میں درج ہے ’’جو شخص مقیم ہواور تندرست ہو اُس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اُسے روزہ ہی رکھنا ہوگا‘ہاں ایسے بوڑھے ‘بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ اِن پر قضا ضروری ہے۔لیکن اگر وہ مال دور ہوںتو آیا انہیں کفارہ بھی دیناپڑے گایانہیں اس میں اختلاف ہے‘‘(تفسیر ابن کثیر؍البقرہ آیت 184)۔یہاں اما م شافعیؒ کے موقف جس کا ذکر قبل ازیں گزرچکاکے متعلق عرض کردوں کہ اس ضمن میں اُن کے اصل میں دو مختلف قول ہیں ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں ایسے شخص پر کفارہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ بچے کی طرح روزہ رکھنے کا مکلف ہی نہیں لہٰذا اُس پر قضا اور کفارہ دونوں ساقط ہونگے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔اور دوسرا قول اس ضمن میں اُن کا وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ ایسے شخص کے ذمے کفارہ ہوگا اور اکثر علماء کا یہی موقف ہے۷؎۔مختصر یہ کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے البتہ اس میں جو فقہی مسئلہ بیان ہوا ہے وہ علماء کی اکثریت کے نزدیک اب بھی باقی ہے۔یعنی ایسا بوڑھا شخص جو روزہ رکھنے کی طاقت سے محروم ہو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے اور کفارہ ادا کرے گا۔ یہ حکم پہلے عموم کے لئے تھااور بعد میں منسوخ ہوگیا۔۔چنانچہ مولانادائودرازؒ رقمطراز ہیں’’اکثرعلماء کہتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ابتدائے اسلام میںیہی (عموم ) حکم ہواتھا کہ جس کا جی چاہے روزہ رکھ جس کا جی چاہے فدیہ دے۔پھربعد میں آیت’’فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ‘‘نازل ہوئی اور اس سے وہ پہلی آیت منسوخ ہو گئی۔‘‘(شرح بخاری جلد؍6؍88)۔چنانچہ آیت کے اگلے کلمات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے(فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ ۔وَاَنْ تَصُوْ مُوْ ا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن)یعنی پھر جو شخص خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اُس کے لئے بہترہے۔اور یہ کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے‘اگر تم جانتے ہو۔ گویا کہ ابتدائے اسلام میں روزہ ایک اختیاری عمل تھاجس کا جی چاہتا روزہ رکھتااور جس کا جی چاہتا وہ کفارہ دے تا۔لیکن اب کوئی اختیارنہیں ‘اب تو بس روزہ رکھنا ہے ۔
(مضمون جاری ہے ۔باقی حصہ انشاء اللہ کل شائع کیاجائے گا)
رابطہ۔سیر جاگیر سوپور،کشمیر
فون نمبر۔8825090545