دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں شمار ہمارا ہندوستان ان دنوں بیمار اور بہت بیمارہے۔کورونا نے جس انداز میں ملک کے اندر تباہی مچائی ہے شاید ہی ہم نے کبھی ایسی تصویر دیکھی ہو۔ہسپتال کے اندر مریض پر مریض،ہسپتال کے باہر بھیڑ ہی بھیڑ،ہسپتال کے اندر سے رکتی چلتی اور تھمتی سانسوں کے بیچ الجھی زندگی کا درد اور ہسپتال کے باہر بے یار ومددگار تڑپتے مریض،جو ہسپتال کے اندر ہیں انہیں جینے کی تمنا ہے اور جو ہسپتال کے باہر ہیں انہیں علاج کی چاہت،ہسپتال کے اندر سے نکلتی لاشوں کے ساتھ آہ وفغاں،ہسپتال کے باہر چیختے چلاتے مریضوں کے رشتے دار۔ہر طرف بے قراری ہے،ہر جگہ چینی ہے،ہسپتال سے لیکر شمشان تک،ہسپتال سے لیکر قبرستان تک روزانہ آنسوئوں کا سیلاب آتا ہے اور کتنے دردمندوں کو ڈبو لے جاتا ہے۔قبرستان میں دو گز زمین ملنا محال ہے اور شمشان گھاٹ پر لمبی قطار ہے۔ایسے موقع سے لاش لیکر آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے انتظار کی لمبی گھڑی اور پھرماتمی ماحول،اُف،کیا گزرتا ہوگا اس بیٹے پر جو اپنے بات کی آخری رسومات کیلئے گھنٹوں لاش کے ساتھ شمشان گھاٹ کے باہر انتظار کررہا ہوتا ہے،یقین نہیں آتا ہے کہ ہم اکسیویں صدی میں ایسی بھی تصویر اپنے وطن کی دیکھیں گے جہاں میت کی آخری رسومات کیلئے ٹوکن لینا ہوگا اور گھنٹوں انتظار کے قطار میں کھڑا رہنا ہوگا،خواب میں بھی ایسا سوچا نہیں تھا کہ لاشوں کی اتنی بھیڑ ہوجائے گی کہ دو گززمین نہیں مل پائے گی۔کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ماں بیٹا کیلئے،بیٹا باپ کیلئے،باپ بیٹے کی جان بچانے کیلئے دن رات ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کا دروازہ کھٹکھٹانے کو مجبور ہوگا اور اپنے رشتے داروں کی جان بچانے کی بھیک مانگ رہا ہوگا۔
زندگی کی تلاش میں آج لوگ موت کے اتنے قریب آجائیں گے کہ پلک جھپکتے مرنے کی خبر آجائے گی،یہ کبھی سوچاہی نہیں۔اس تیز رفتاری کے ساتھ اپنے بچھڑیں گے اور ایک دن میں درجنوں جاننے والوں کے موت کی خبر آئے گی،یہ حقیقت ہے بعض دفعہ یقین کرنا مشکل ہورہا ہے،کون کس موڑ پر آج دم توڑ دے،بے یقینی کی صورتحال نے ایک عام ماتمی اور سوگوار ماحول ہندوستان میں پیدا کررکھا ہے۔ہسپتال انتظامیہ لاچار ہے،ڈاکٹر بیمار ہیں اورسرکارہے کہ دعوے پر دعوے کررہی ہے جبکہ سرکار کے دعوے زمین پر کہیں اترتے نظر بھی نہیں آرہے ہیں۔ایسے میں اس ناگفتہ بہ صورتحال کیلئے ذمہ دار کون ہے اور جوابدہی کس کی ہے،یہ سوال اہم ہوجاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ہندوستان میں جب کورونا کی پہلی لہر آئی تھی تب مرکزی سرکار کی طرف سے ایک ہائی پاور کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ کورونا سے لڑنے کے طریقہ کار پر غور کرے اور حالات کی بہتری کا راستہ تلاشے۔کمیٹی نے جو کچھ بھی ہوا اپنا کام کیا اور پہلی لہر قابو میں آگئی،پی ایم مودی نے جنوری میں ڈاووس سمٹ کے دوران یہ اعلان بھی کردیا کہ ہم نے کورونا سے جنگ جیت لی ہے۔لیکن پہلی لہر کے دوران ہی مرکزی سرکار کو اس ہائی پاور کمیٹی نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ دوسری لہر میںاس سے زیادہ خراب صورتحال ہوگی اور اس وقت آکسیجن کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔اس لئے ہمیں اس سے بچائو کا پہلے سے ہی راستہ نکالنا ہوگا۔کمیٹی کی سفارش سرکار نے نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ملک کے آکسیجن کو گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال میں دوگنا دوسرے ملکوں کو بھیج دیا جس کی وجہ سے اپنے پاس بہت ہی محدود مقدار میں آکسیجن باقی رہا۔
کمیٹی کی ہدایت کے عین مطابق دوسری لہر میں آکسیجن کی سب سے زیادہ ضرورت پڑرہی ہے اور آکسیجن نہ ملنے سے روزانہ درجنوں مریضوں کی سانسیں رک رہی ہیں۔پی ایم مودی اور حکمراں جماعت کمیٹی کی سفارش کو پس پشت ڈالتے ہوئے انتخابی میدان میں زور آزمائی کرنے لگی،بہار میں انتخابات ہوئے اور لاکھوں کی بھیڑ میں ریلیاں ہوتی رہیں۔اس کے بعد آسام،تمل ناڈو،کیرل، پڈوچیری اور پھر مغربی بنگال،ان ریاستوں میں کورونا ہونے کے باوجود ریلیاں پر ریلیاں ہوتی رہیں اور عوام بھی کورونا کی شکار ہوتی رہی،آج اگر ایک دن میں تین تین لاکھ سے زائد کورنا کے معاملے آرہے ہیں تو اس کیلئے حکمراں جماعت،اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ عام عوام بھی ذمہ دار ہے۔سرکار عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتی رہی،عوام بنتی رہی،سیاسی پارٹیاں لوگوں کا استعمال کرتی رہی اور لوگ استعمال ہوتے رہے،لیکن آج وہی لوگ جب ویکسین،ریمڈیسیور اور آکسیجن کیلئے تڑپ رہے ہیں تو ان میں سے کوئی پارٹی آگے نظر نہیں آرہی ہے،کہیں نہ کہیں اس حمام میں سب ننگے ہیں۔سرکار اور عوام دونوں کی لاپرواہی کا نتیجہ آج یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہر وقت ہسپتال سے لاشیں نکل رہی ہیں اور ہر وقت ہسپتال کے باہر چیخ وپکار کی آواز گونج رہی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں عام عوام نے کورونا کے تئیں لاپرواہی کی وہیں دوسری جانب سرکار نے وقت ملنے پر اس کے خلاف تیاری نہیں کی،نتیجے میں آج ہمیں تیاری کرنے کا موقع بھی نہیں مل رہا ہے اور لاشوں کا لامتناہی سلسلہ ہسپتال سے شمشان اور قبرستان کی طرف رواں دواں ہے اور چیخ وپکار سے پوری فضا سوگوار ہے۔بس ہر کسی کو اس حالت سے نکلنے کا انتظار ہے،لیکن سرکار اور کورونا کی مہربانیاں کتنے جانوں کو قبرستان اور شمشان گھاٹ پہنچائے گی خدا جانے۔
(مضمون نگار گلستان نیوز کے اینکر پرسن ہیں)