جال
سپنے بنتے بنتے
جانے کب بن بیٹھی تھی میں
اپنے لئے اک جال
وقت نے شاید چلی تھی چال
جس نے کیا مجھکو بے حال
پریت کا کب بن بیٹھی میں
ایک ریشمی جال
کچھ پتا ہی نا چلا
کب ہوش گنوائے
کب ہوئ بے حال
کچھ پتا ہی نہ چلا
جب حیات ہوئی بے تال
اور جینا ہوا محال
تب دکھ کا دیکھا جال
تقدیر نے چل دی چال
سب روگ لئے تھے پال
ہر پل بنا جنجال
یہ کیسا آیا کال
کچھ پتا ہی نہ چلا
جسپال کور
نئی دلی، انڈیا
موبائل نمبر؛09891861497
کیا کبھی دَورِ خزاں آیا نہیں؟
وقت آخر پاس کوئی مہرباں آیا نہیں
جائے مرگھٹ تک نظر اُس کا نِشاں آیا نہیں
چلو غیروں نے دیا کاندھا مگر کہتے ہوئے
کیا ہُوا کیونکر فلاں اِبنِ فلاں آیا نہیں
جیتے جی اُلفت جتانا گو کہ رسمِ عام ہے
بعدِ مُردن بھی کوئی ماتم کُناں آیا نہیں
مَیں غریقِ ستم تھا گوشے میں اکثر نالہ زن
ایسے عالم میں بھی کوئی میرے ہاں آیا نہیں
جستہ جستہ لکھ چُکا تھا سب کو مَیں احوالِ دل
ٹِک گئی تھی آنکھ در پہ کارواں آیا نہیں
تشنہ کامی میں گزاری زندگی اقساط میں
حسرتاً اس دور میں پیرِ مغاں آیا نہیں
مجھ کو ہے معلوم ہوگا ایک دن یوم الحساب
میرے تالع میں مگر وہ امتحاں آیا نہیں
بھول جا عُشاقؔ آیا تھا کبھی دورِ شباب
فصلِ گُل پہ کیا کبھی دَورِ خزاں آیا نہیں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
موبائل نمبر؛ 9697524469
قطعات
کبھی دولت کبھی شہرت کے پیچھے
کوئی اذیت کوئی نفرت کے پیچھے
یہی انسانیت ہے کیا خدایا؟
پڑے ہیں آدمی کے رُت کے پیچھے
���
مجھے کیسی ہوئی ہے بے قراری
مصیبت میں کرو ہوں آه و زاری
یہی ایمان ہو میرا خدایا
درِ سرکار سے ہو آبیاری
���
تری تعریف میں یاروؔ نگوں ہو
ترا کعبہ مرے من کا جنوں ہو
مرا دل چاہتا دیدارِعالم
یہی تو مومنو دولت، سکوں ہو
یاور حبیب
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160