جس بات کا خطرہ لاحق تھا بالآخر وہی ہوا ،8اپریل 2021 کو برصغیر کے مشہور دانشور ، محقق، مصنف اور کشمیر یونیورسٹی کے سابق شیخ الجامعہ ڈاکٹر ریاض احمد پنجابی اپنی طبعی عمر پوری کرکے قومی راجدھانی نئی دہلی میں راہی ملک بقا ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
پدم شری ایوارڈ یافتہ پروفیسر ریاض پنجابی طویل عرصے سے صاحب فراش تھے۔جناب ریاض احمد پنجابی 2008 سے 2011 تک کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ پروفیسر پنجابی نے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ چھ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ اس کے علاوہ انکے تحریر کردہ اہم مضامین ملکی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔
مرحوم کے اہل خانہ کے مطابق ڈاکٹر ریاض پنجابی نے جمعرات کی صبح اپنی دہلی رہائش گاہ پر آخری سانس لی اور ادب و تعلیم میں خدمات کے عوض انہیں 2011 میں اعلیٰ شہری اعزاز پدم شری سے بھی نوازا گیا۔مرحوم نے یورپ ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا کی کئی یونیورسٹیوں میں تحقیقی تقاریر کرکے اپنی عظمت کا لوہا منوایا اور بجا طور پر کشمیر سے لیکر بیرون دنیا تک ریاض پنجابی کے انتقال پر سماج کے مختلف طبقوں، سیاسی ، سماجی اور دینی حلقوں نے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور مرحوم کی وفات کو ایک بڑا خسارہ قرار دیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر ریاض پنجابی ایک مرنجا مرنج ، پْر کشش اور باوقار شخصیت کے مالک تھے اور مسکراہٹ ہمیشہ انکے چہرے پر کھلی رہتی تھی۔مرحوم ریاض پنجابی سے ملاقات اور انکی علمی اور فکری شہرت جموںوکشمیر میں مسلح شورش سے قبل جب ماحول ہر طرف پر امن اور سازگار تھا سننے کو ملی۔ ان دنوں مرحوم کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ قانون پھر بعد میں education distance(فاصلاتی تعلیم شعبہ )کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اکثر و بیشتر جموںوکشمیر کے ممتاز دینی اور سیاسی رہنما میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب سے ملاقات کیلئے تشریف لاتے اور ایک دانشور اور زیرک سیاسی مبصر کی حیثیت سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیالات کرتے۔
دراصل اْسی زمانے میں مجھ حقیر پر بھی موصوف کی نظر پڑی اوروہ دن اور دنیا سے رخصت ہونے کا آخری دن ہمیشہ ہی تعلق اور محبت میں اضافہ ہوتا رہا۔ مرحوم کبھی کبھی یونیورسٹی اپنے شعبے میں چائے نوشی کیلئے یاد فرماتے۔ اسی دور سے انکی شفقت ، خورد نوازی اور عنایتوں کا قائل ہوتا رہا تا آنکہ1990 کی دہائی میںوادی کشمیر میں جب ملی ٹنسی اپنے پورے جوبن پر آگئی تو ہم سبھی واقف ہیں اسکی وجہ سے کشمیر کی تاریخ ، جغرافیہ ، مذاق اور مزاج سب کچھ ہی بدل کررہ گیا۔ زندگی کے اہم ترین شعبوں سے جڑی کئی اہم ترین شخصیات ملی ٹنسی کی آندھی کی نذر ہو گئیں۔ سب کچھ کایا پلٹ ہو گیا اور 21مئی1990 کو آناً فاناً میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب جیسا بے باک عوامی رہنما اپنے عوام سے جدا کر دئے گئے۔ کشمیریوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ہر سو افرا تفری اور بے بسی کاعالم تھا۔
راقم آثم بھی غریب الدیار ، ناتجربہ کار اور سیاہ کار جیسے عالم غربت میں یتیم و یسیر ہوکر رہ گیا۔ ان حالات میں کشمیر کے بیشتر دانشور ، سیاسی سوجھ بوچھ اور فہم و بصیرت رکھنے والے لوگ ہجرت اور ترک وطن پر مجبور ہو گئے۔ ڈاکٹر ریاض پنجابی بھی شائد حالات و واقعات سے بد دل ہوکر خاموشی سے کشمیر سے باہر چلے گئے۔ ظاہر ہے اس دوران کسی سے بھی کوئی رابطہ رکھنا ممکن نہیں تھا۔ موبائل اور سیل فونوں کی سہولت نہیں تھی۔ لے دے کر کسی کسی کے پاس لینڈ لائن نمبر ہوتے تھے اور وہ بھی اکثر و بیشتر ناکارہ اور بے کار رہتے۔
کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں وقت کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے۔ حالات کے نشیب و فراز ، گردش لیل والنہار کی وجہ سے فطرت اپنا قانون اور ضابطہ نہیں بدلتی ہے۔2008کا آغاز ہونے والا تھا۔ کشمیر یونیورسٹی کے اس وقت کے سابق رجسٹرار اور اب سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے وائس چانسلر میرے محسن اور بہی خواہ جناب ڈاکٹر معراج الدین میر نے جنہیں حضرت حق جل مجدہ نے اپنے نام اور فطرت صالح کی مناسبت سے ، محنت و قابلیت ، حسن اخلاق اور بلندی کردار کے سبب عزت و وقار اور عروج و کمال سے نوازا ہے ، فون پر مجھے اطلاع دی کہ ڈاکٹر ریاض پنجابی اب کشمیر یونیورسٹی کے VC منتخب ہو گئے ہیں تم ان کو مبارکباد پیش کرو۔ از راہ کرم ممدوح نے جناب ریاض پنجابی کا دلی کا رابطہ نمبر بھی عنایت فرمایا ، پہلی فرصت میں فون پر رابطہ کی کوشش کی ، اللہ رے ذہانت و فطانت اور قوت یادداشت، سلام کی آواز سنتے ہی فوراً پہچان گئے کہ مخاطب کون ہے؟۔ کہنے لگے کہ کہاں ہو ، کس حال میں ہو اور کیا ہورہا ہے، راقم نے ٹھہر ٹھہر کر اختصار کے ساتھ تفصیل عرض کی اور کشمیر یونیورسٹی کا کلیدی عہدہ سنبھالنے پر دلی مبارک باد اور تہنیت پیش کی تو کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرا اصلی نام کیا ہے ؟ میں نے لا علمی ظاہر کی تو کہنے لگے کہ میرا اصل نام ریاض الدین احمد ہے اور یہ نام وقت کے ولی کامل ، مرد مومن ،مفسر قرآن میرواعظ مولوی محمد یوسف شاہ مرحوم نے رکھا تھا۔ اس انکشاف پر مجھ پر ایک حیرت انگیز اور خوشگوار کیفیت طاری ہو گئی ۔پھر جو انہوں نے اپنے تعارف ،خاندانی پس منظر اور دیگر احوال کے تئیں وضاحت کی تو میں انگشت بدندان رہ گیا۔
چنانچہ موصوف نے کشمیر یونیورسٹی میںاپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالی تو راقم نے ڈاکٹر ریاض احمد پنجابی کی شخصیت اور قد و قامت کے حوالے سے اپنے احساسات و تاثرات اور انکی علمی خدمات پر مشتمل ایک تفصیلی مقالہ لکھا جو ’’ روزنامہ آفتاب‘‘ میں بابائے صحافت خواجہ ثنا اللہ بٹ مرحوم کی ادارت میں شائع ہوا اور جس نے علمی اور عوامی حلقوں میں زبردست شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی اور مثبت و منفی دونوں طرح کے تبصرے سننے کوملے۔
پروفیسر ریاض پنجابی قومی راج دھانی نئی دہلی سے ہی مختلف محاذوں پر سرگرم عمل رہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ٹریک ٹو ڈپلو میسی کے ضمن میں اپنی مفید اور دور رس کوششوںکو جاری رکھتے ہوئے سرینگر آگئے اور کشمیر میں اپنے وی سی شپ کے دوران موصوف کی رہائش گاہ اور دفتر میں درجنوں بار ملاقات اور تبادلہ خیالات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔
اس میں کوئی شک اور شبہ اور دو رائے نہیں ہے اوراس کا اعتراف مخالف اور موافق سبھی حلقے کرنے پر مجبور ہیں کہ ڈاکٹر ریاض پنجابی کی قیادت میں کشمیر یونیورسٹی میںدرس و تدریس اور ریسرچ و تحقیق کی نئی بلندیوںکو چھونے کی کوشش کی۔ نامساعد اور ناگفتہ بہہ حالات کے باوجودیونیورسٹی ہر محاذ پر ترقی کی نئی منازل سے ہمکنار ہوتی رہی یہاں تک کہ ریاض پنجابی کی قیادت میں کشمیر یونیورسٹی کا شمار ملک کی اے گریڈ یونیورسٹیز میں ہونے لگا۔
مرحوم ریاض پنجابی کے سنہری دور میں ہی ایک طویل وقفے کے بعد یونیورسٹی کا تاریخی کنووکیشنConvocation کاانتہائی شان و شوکت کے ساتھ انعقاد ممکن ہو سکاجس میں جموںوکشمیر اور ملک کے ممتاز اسکالروں اور تعلیمی ماہرین کے علاوہ اس وقت کے صدر جمہوریہ جنا ب حامد انصاری نے نہ صرف شرکت اور شمولیت کی بلکہ ایک انتہائی اہم اور فکر انگیز کلیدی اور صدارتی خطبہ دیا۔ ڈاکٹر ریاض پنجابی کی قیادت میں یونیورسٹی نے جو سنگ میل طے کئے وہ ہر لحاظ سے ناقابل فراموش ہیں۔
جیساکہ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ ملک کی بیشتر ریاستوں کی طرح جموںوکشمیر میں بھی تعلیم یافتہ بے روزگاری کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے ، جناب ریاض پنجابی نے محض انسانیت اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت سینکڑوں بے روزگار نوجوانوںکو اپنی ذاتی حیثیت سے یونیورسٹی میں ملازت اور روزگار فراہم کرایا جو بلا شبہ مرحوم کیلئے ذخیرہ آخرت اور حسنات میں اضافے کا سبب ہوگا۔
انسان بشر ہے اور بشریت کے ناطے انبیا ء کے بغیر کوئی فردو بشر کمزوریوں اور خامیوں سے خالی اور مبرا نہیں ہے۔ اس لحاظ سے ظاہر ہے کہ ریاض پنجابی مرحوم کے اندر بھی کمزوریاں اور خامیاں ہونگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انکی تمام کمزوریوں پر انکا حسن اخلاق اور خوش مزاجی بھاری تھا۔ڈاکٹر ریاض پنجابی کو ہر محاذ وطن کی طرح اپنے کلچر ، زبان تہذیب اور تمدن و ثقافت کے ساتھ شدید اور گہرا لگائو اور تعلق تھا۔ چنانچہ مرحوم نے کشمیریت ، انسانیت اور انفرادیت کے تحفظ کیلئے جو قابل قدر کارنامے انجام دیئے وہ ہرگز نظر انداز نہیں کئے جاسکتے۔
راقم الحروف دینیات اور اسلامیات کا ایک ادنیٰ طالب علم ہے تاہم میرے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ ڈاکٹر ریاض پنجابی بعض اوقات دینی مسائل اور امورات کے بارے بلا تکلف استفسار فرماتیاور راقم اپنی معلومات اور دانست کے مطابق مرحوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا۔
ڈاکٹر ریاض احمد پنجابی ایک درد دل رکھنے والے بلند کردار کے ملنسار اور مخلص انسان تھے جن میں انسانیت ، رواداری ، محبت اور خلوص کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ میری دانست کے مطابق مرحوم نے زندگی کے ہر مرحلے پر موقعہ اور محل کے لحاظ سے ضرورتمندوں کی ہر ممکن مدد اور داد رسی کرنے کی کوشش کی یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی قومی اور ملی کمزوریوں کے پیش نظر کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ انسان کی کردار کشی اور عیب جوئی کا موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس حوالے سے مرحوم پنجابی صاحب کو بھی یار دوستوں نے ہرگز نہیں بخشا لیکن اب مرحوم کی وفات کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس پایہ کے اعلیٰ درجہ کے انسان تھے۔ جیسا کہ عرض کیا گیاکہ ایک محب وطن اور وطن دوست کشمیری النسل ہونے کے ناطے انہیں اپنے مرزبوم اور کشمیری عوام سے زبردست پیار اور لگائو تھا تاہم وہ موقعہ پرست اور چاپلوس قسم کے لوگوں سے دور بھاگتے تھے اور جموںوکشمیر کے رواںناسازگار حالات سے مرحوم سخت کبیدہ خاطر اور بد دل رہا کرتے تھے۔ ان کی خواہش بلکہ اپنے دائرے کار میں یہ زبردست کوشش تھی کہ دونوں ہمسایہ ملکوں بھارت اور پاکستان کے مابین اعتماد سازی کے ساتھ مسائل پْر امن ذرائع سے حل کئے جائیںاور کشمیریت ، انفرادیت اور اسکی شناخت کوہر قیمت پر بحال اور باقی رکھا جائے۔ ان کا یہ واضح نظریہ تھا کہ تشدد اور افراتفری کسی بھی مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے اور نہ ہی تنائو، کشیدگی اور جنگ و جدل سے مسائل کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔بلا شبہ پروفیسر ریاض پنجابی کی وفات سے ایک تابندہ دور کا خاتمہ ہو گیا۔
بہر کیف مرحوم ڈاکٹر پنجابی کے تعلق سے یادوں اور خیالات کا ایک انبار ہے جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ کہنے والے نے کس قدر معقول اور دل کو چھو لینے والی بات کہی ہے ؎
زندگی موت تیری منزل ہے
دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں
اور
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا