سرینگر// جموں کشمیر میں مسلسل لاک ڈائون کے نتیجے میں کاروباری و تجارتی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے،جس کے نتیجے میں تجارتی طبقے کوکروڑ وںکے نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔5اگست2019کو مرکزی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر میں آئین کی تخصیص اور ریاست کی تقسیم کے بعد قریب6ماہ تک وادی میں کاروباری سرگرمیاں تھم گئیں،اور اگر موسم سرما کے3ماہ میں کاروباری سرگرمیاں کم و بیش بحال ہوئی،تاہم گزشتہ برس مارچ کے وسط میں کورونا لاک ڈائون کے نتیجے میں رہی سہی امیدیں بھی مایوسی میں تبدیل ہوئیں اور یہ سلسلہ6ماہ تک جاری رہا۔ اکتوبر کے وسط سے مارچ تک اگر چہ کاروباری سرگرمیوں نے دوام پکڑا مگر پھر سے کورونا کے بحران نے حکومت کو لاک ڈائون کرنے پر مجبور کیا۔جموں کشمیر میں گزشتہ3برسوں سے تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کی بندشوں کے نتیجے میں جہاں معاشی صورتحال پہلے ہی خستہ ہوچکی ہے وہیں تازہ لاک ڈائون نے اس کو مزید ابترکیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ ہر ایک شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے،جس میں دکاندار،ٹرانسپورٹ،صنعت و حرفت، کارخانے، دست کاری،تعمیرات، اراضی و مکانات کی خرید و فروخت،تعلیم، صحت، سیاحت، زراعت، باغبانی، سروسز،ہوٹل و ریستوران،ہاوس بوٹ وغیر شامل ہیں۔ تاجرلیڈران کا کہنا ہے کہ اگر سرکار نے تاجروں کا ہاتھ نہیں تھاما تو تجارتی شعبہ ختم ہوگا اور آنے والے دنوں میں تاجر سڑکوں پر آئیں گے۔ کشمیر اکنامک الائنس کے چیئر مین اورکشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن کے صدر محمد یاسین خان نے کہا کہ گزشتہ برس لاک ڈائون کے دوران جس طرح حکام نے سود میں نرمی اور قرضوں کی مدت میں اضافہ کا اعلان کیا تھا،اسی طرز پر ایک بار پھر سرکار کو سامنے آکر تاجروں کو راحت دینی چاہیے۔ اکنامک الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار کا کہنا ہے کہ گزشتہ22ماہ کے دوران زائد از50ہزار کروڈ روپے کا نقصان تجارتی طبقے کو ہواہے۔انہوں نے کہا کہ5اگست2019کے بعد کم و بیش13ماہ تک مجموعی طور پر تجارتی سرگرمیاں بند رہیں۔کشمیر ٹریڈ الائنس صدر اعجاز احمد شہدار نے کہا کہ دکانداروں اور ٹرانسپوٹروں کیلئے راحت کے اقدامت کئے جانے چاہیے۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزنے2019کے بعد پیدہ شدہ صورتحال کے نتیجے میں وادی میں کاروباری سرگرمیوں کو ہوئے نقصان سے متعلق رپورٹ میں18ہزار500کروڑ وپے کے خسارے کا اعداد شمار پیش کیا تھا،جبکہ کشمیر ٹریڈ الائنس نے گزشتہ برس کے لاک ڈائون کے نتیجے میں تجارتی سرگرمیوں کو ہوئے نقصان سے متعلق رپورٹ میں اس خسارے کو21ہزار کروڑ روپے ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔وادی کی دم توڑتی معیشت کیلئے یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب وہ اس درجہ ختم ہوئی،بلکہ2014کے تباہ کن سیلاب کے دوران بھی سیلابی پانی نے مقامی معیشت کو تباہ کیا،جس کا اندازہ مقامی تجارتی پلیٹ فارم کشمیر اکنامک الائنس نے ایک لاکھ کرور روپے لگایا تھا،اور اگرچہ پہلے سرکاری سطح پر بھی اسی اعداد شمار کی پذیر آرائی کی گئی تاہم سرکاری سطح پر بعد میں نقصانات کو44ہزار کروڑ روپے بتایا گیا۔2016میں بھی جولائی سے شروع ہونے والے ہڑتال کے نتیجے میں قریب6ماہ تک وادی میں تجارتی و کاروباری سرگرمیاں بند رہی،جس نے رہی سہی کثر پوری کی۔