حجرے میں گُم ہجوم
کئی دنوں سے یہ سوچتا ہوں
کہ سوچنا ہی نہیں ہے کافی
ذرا میں دیکھوں ہے جتنا سوچا
کہ اس میں کتنی حقیقتیں ہیں
فسانے کتنے مجاز کتنا فضول کتنا
مگر یہ ممکن نہیں ہے شاید
میں کس سے پوچھوں
کہاں پہ ڈھونڈوں
کہاں کریدوں کہاں سے جھانکوں
یہاں ہے زخموں کی دھوپ گم سُم
وہاں پہ گردِ ملال بکھری
جہاں بھی شاخِ گلاب رکھی
صبا کی سانسیں فضاء کا آنچل
تقدسوں کی مہک اُٹھائے
وہاں تو ہر شب دیا ہے جلتا
مزارِ سوسن کے گل بدن پر
کشیدہ رنگِ کفن میں لپٹا
اذیتوں کا ہے حبسِ ہجراں
سیاہ سوچوں کا دُکھتا حجرہ
گُھٹن گُھٹن سے بھرا پڑا ہے
ہجومِ غم ہے کہ روزنوں میں
تمام دُکھ ہے
میں کس کو سوچوں
کہ سوچنا ہی نہیں ہے کافی
کئی دنوں سے میں سوچتا ہوں۔۔۔
علی شیدؔا
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087
تِری ہی دید ہے ساقی
مئے عرفان کی نعمت تِری تجدید ہے ساقی
بقائے زیست کا ضامن تو ہی اُمید ہے ساقی
لبالب دِل کہ ہے تیرا کمالِ کبریائی سے
تو قصرِ علم و دانش کی صبحِ نوید ہے ساقی
یہ جنسِ بے ثباتی ہے ترے دیدار کی طالب
تصوّر میں تو ان کے اِک گِراں خورشید ہے ساقی
نبھاتا کارِ ہستی سب تو اکثر خندہ روئی سے
جہاں کے ذرّے ذرّے میں تِری ہی دید ہے ساقی
نہیں منّت کشِ قطرہ بمٔوجب تشنگی کوئی
عنایت تو کرے ساغر یہی تو عید ہے ساقی
تھماتا تو ہی عارف کو مئے نایاب کا پیالہ
تِری ہی ذات سے اُس کو بڑی اُمّید ہے ساقی
سُنا ہے تُو کہ رہتا ہے عموماً خُرقہ پوشوں میں
تِرا رُتبہ مگر اُن سے بہت بعید ہے ساقی
تِرے ہی فیض سے مُمکِن ہُوا آمادئہ ایماں
گُماں تُجھ کو نہیں پھر بھی کہ تُو وحید ہے ساقی
نشاطِ نیک نامی کو تلاشوں مَیں کہاں عُشاقؔ
مِرا وہ رہبرِ کامل ہُوا شُنید ہے ساقی
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
موبائل نمبر؛ 9697524469