بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ امت مسلمہ کی ملکیت ہے، اس پر کسی دوسری قوم کا کسی بھی لحاظ سے حق نہیں، نہ ہی مذہبی، نہ ہی قومی، نہ ہی سیاسی۔ مسجد اقصیٰ امت مسلمہ کی عزت و عظمت کی علامت ہے، ہمارا ایمان ہے۔
مسجد اقصیٰ دنیا کی دوسری سب سے قدیم مسجد ہے،جس طرف حدیث اشارہ کرتی ہے"حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم روئے زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی ہے؟ آپؐ نے فرمایا مسجد حرام۔وہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دریافت کیا اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا مسجد اقصیٰ،تو میں نے پوچھا کہ دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا چالیس سال کا"۔(صحیح مسلم)
مسجد اقصیٰ کا اطلاق دراصل اس پوری مسجد پر ہوتا ہے جس کے اردگرد دیواریں ہیں، جس میں دروازے ہیں اور وسیع میدان ہے، جس میں المصلی الجامع ہے، قبۃ الصخرۃ ہے، المصلی المردانی ہے، برآمدے ہیں، گنبد ہیں، چبوترے ہیں، پانی کی نالیاں ہیں۔ مسجد اقصیٰ پوری کی پوری کی بغیر چھت کے ہے، سوائے قبۃ الصخرۃ اور المصلی الجامع کے جس کو لوگ عام طور پر مسجد اقصیٰ سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ جتنا حصہ بچتا ہے وہ مسجد کے صحن کے حکم میں ہے، اسی پر علماء و مؤرخین کا اتفاق ہے۔ مسجد اقصیٰ، مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے پر جو فضائل وارد ہوئے ہیں وہ مسجد اقصیٰ کے دیواروں کے اندر کے کسی بھی گوشہ میں ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔مسجد اقصیٰ کی فضیلت کے لئے بس قرآن کریم کی یہی آیت مبارکہ کافی ہے"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئے جس کے آس پاس ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھادیں"۔ مسجد اقصیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے نبیوں کی امامت فرمائی۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" تین ہی مساجد کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے، مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد (مسجد نبوی)"(متفق علیہ)۔ ایک روایت میں آتاہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نیاس کو قوم عمالقہ سے فتح کیا، آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کی تولیت میں آئی تو آپ نے ازسرنو مسجد کی تعمیر کی اور اس کے بازو میں ایک محل کی تعمیر کروایا جو ھیکل سلیمانی کے نام سے مشہور ہے۔جب آپ تعمیر کے کام سے فارغ ہو گئے تو آپ نے تین دعائیں کی’’ اللہ تعالی عقل و دانائی عطا کرے۔اللہ تعالی ایسی سلطنت و بادشاہی عطا کرے کہ ان کے بعد کسی کو نہ عطا نہ کرے۔جو بھی (صاحب ایمان) اس مسجد میں نماز ادا کرے اس کے گناہ معاف کردئے جائیں اور وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جائے جیسے وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن تھا۔"
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیت المقدس اور بلاد شام وہ سرزمین ہے جہاں حشر و نشر قائم ہوگا۔ سرزمین شام کے ہی ایک مقام جس کا نام " لد " ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو ماریں گے۔
مسئلہ فلسطین کا آغاز
سرزمین شام اور بیت المقدس یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا تحفہ ہے امت مسلمہ کو۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بیت المقدس15 ہجری مطابق 636 عیسوی میں عیسائیوں کو شکست فاش دے کر حاصل کی۔ مسجد اقصیٰ عباسی دور تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہی لیکن ایک بار پھر عیسائیوں نے حملہ کر کے مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں کے قبضہ سے چھین لیا، تو موجودہ عراق کا " تکریت"نامی شہر سے اللہ کا شیر، مرد غیور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نائب جس کو دنیا فاتح صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانتی ہے اٹھا اور صلیبیوں کو شکست فاش دے کر 583ہجری مطابق 1187 عیسوی کو صلیبیوں کے چنگل سے آزاد کرایا اور اس کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیا، حتی کہ یہ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبد الحمید عثمانی ثانی کی تولیت میں آئی۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ خلافت زوال پذیر تھی۔ اسی دوران صہیونیوں کا ایک بڑا اجلاس سوئیز لینڈ کے شہر"باسل"میں 1897 عیسوی میں منعقد ہوا، جس میں یہودیوں کے چوٹی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس جلسے میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرٹزل ( Hertzle Theodo) نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ" دنیا آج سے پچاس سال بعد روئے زمین پر صہیونی ریاست قائم دیکھ لے گی۔"
واضح رہے کہ اس وقت یہودیوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا چہ جائیکہ ملک۔ خلافت کمزور ہو چکی تھی اور ساتھ ہی ساتھ مقروض بھی۔ ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور خلیفہ کو مال و زر کی طمع دی (خلافت جس حال میں بھی ہو لیکن خلیفہ کے اندر فاتحین کا خون تھا) اور یہودیوں نے ارض مقدس کا ایک حصہ خلیفہ سے مانگا تو خلیفہ نے اپنے پاؤں کے ناخن سے مٹی کھرچی اور یہودیوں کو جواب دیتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے " اگر تم اپنا سارا مال و دولت لاکر میرے قدموں میں ڈال دو تو بھی میں فلسطین کی اتنی مٹی بھی نہ دوںگا" ۔اس کے نتیجے میں خلیفہ کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا گیا اور خلافت کی بھی دم واپسی تھی۔ پہلی جنگ عظیم سے ہی یہودیوں نے فلسطین میں بسنا شروع کر دیاتھا۔ 1914 میں یہودیوں کی آبادی 9فیصد تھی۔ 1931 تک %71 فیصد ہوگئی ۔تب مسلمانوں کو ہوش آیا، اس وقت فلسطین برطانوی حکومت کے زیرنگیں تھا۔ 1936 سے 1939 تک فلسطینیوں نے برطانوی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ مگر اب کافی دیر ہوچکی تھی۔ برطانوی حکومت نے یہودیوں کے ساتھ مل کر فلسطینی بغاوت کو باآسانی ناکام بنادیا۔ یہود چونکہ کئی سو سال سے بے وطنی کی زندگی گزار رہے تھے، ان کے رہنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا، اور اب فلسطین جیسا مقدس ملک ان کے ہاتھ لگ گیا تھا۔دوسری طرف دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کا قہر یہودیوں پر جس طرح ٹوٹا، اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس وقت بھی یہودی اپنی جان کی امان لینے کے لئے ارض فلسطین ہی کا رخ کر رہے تھے۔ 1948 میں یہودیوں کی آبادی ایک رپورٹ کے مطابق 1,58000 تک پہنچ گئی تھی۔ اب ایک منظم سازش کے تحت جو کہ پہلے سے طے شدہ تھی برطانیہ نے قضیہ فلسطین کو کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو عالمی پلیٹ فارم پر یعنی اقوام متحدہ میں حل ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے ایک ظالمانہ قرارداد کے ذریعے ارض فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کاروان زندگی میں اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے" دراصل مسئلہ فلسطین ایک ڈرامہ تھا، جس کو انگریزوں اور ان کے پٹھوئوں نے پہلے سے تیار کررکھاتھا، اس کے اردگرد عرب، عرب بادشاہ اور حکومتیں تھیں۔ یہ ڈرامہ فلسطین کے اسٹیج پر کھیلا گیا اور عالم عربی اور عالم اسلام کی آنکھوں میں دھول ڈال کر برطانیہ اور صہیونی یہودیوں کے منصوبے کو پورا کیاگیا۔ یہ ایک سوچی سمجھی شاطرانہ سکیم تھی۔ مسلمانوں کی اس ذلت و رسوائی کے معاملے میں آزاد فلسطین قوم سب سے زیادہ بے قصور ہے۔ اصلاً فلسطین کا خون عرب حکومتوں اور ان کے قائدین اور عرب لیگ کی گردن پر ہے"۔ اسلامی ممالک نے اس وقت اس تسلیم کو ماننے سے انکار کیا تھا مگر بعد میں چند نام نہاد اسلامی ممالک نے نہ صرف اس کو تسلیم کیا بلکہ اسرائیل کو ایک مہذب اور آئیڈیل ملک مانا اور اس کے ساتھ اپنے تمام طرح کے تعلقات معاشی، سیاسی استوار کئے۔
فلسطین کی تاریخ کا ایک اہم جزء 1967 کا ہے۔ 1967 میں یہودیوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ ایک تاریخی جنگ لڑی جس میں اس نے بڑی شاطرانہ انداز میں تینوں مخالفین اسلامی ممالک (مصر، اردن اور شام)کو شکست دی۔ جس میں ان ممالک کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ جانی بھی، مالی بھی۔اس جنگ کوSix days warکے نام سے بھی جانا جاتاہے۔اس وقت اسرائیل کا وزیر دفاع Dayan Mosh تھا جس نے دیوار گریہ کے پاس کھڑے ہوکر یہ تاریخی جملے کہے’’We have returned to our holy place and We shall never leave them‘‘ترجمہ " ہم اپنی مقدس سرزمین پر واپس آچکے ہیں ، اب ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے"۔ اس وقت امت خاموش ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑی رہی، جس کے درد کو ہندوستان میں بیٹھا ایک شخص محسوس کرتاہے ،جس کو دنیا مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کاروان زندگی میں اس کو یوں بیان کیا ہے’’عرب حکومتوں اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے دل و دماغ پر فلسطین کا مسئلہ چھاجائے اور اس کی صلاح الدین ایوبی کی طرح وہ کیفیت ہوجائے جس کو ان کے سیکرٹری ابن شداد نے اس طرح بیان کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ماں کی گود میں اس کے اکلوتے بچہ کو حلال کرکے ڈال دیا ہو۔ فلسطین کا مسئلہ جب بھی حل ہوگا اسی طرح حل ہوگا۔ کانفرنسوں، ریزولیوشن اور خوشامدوں سے حل نہیں ہوگا"۔
فلسطین کی تازہ صورت حال
1948 میں اسرائیل نام سے ایک ریاست عالم اسلام کے قلب میں بزور طاقت قائم کی گئی اور 1967 میں بیت المقدس پر ناجائز اسرائیلی قبضہ بھی ہوگیا۔ اسی وقت سے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کا کنٹرول ہوگیا ہے۔ کئی دہائیاں گزر گئی لیکن ابھی تک ان کے ناجائز قبضہ سے آزادی کی صورت پیدا نہیں ہوسکی، جب کہ اس درمیان قربانیوں اور کوششوں کی زریں کڑی ہے، جو ہمت و حوصلہ کی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ شیخ احمد یاسین وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لئے عظیم قربانی دی۔ اور ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جسے دنیا آج (حماس)کے نام سے جانتی ہے۔ بالآخر وہ اس عظیم کام کے لئے اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے۔ ان کے بعد شیخ عبد العزیز اور دیگر مشائخ کی قیادتوں سے یہ تحریک زور پکڑتی رہی اور ناجائز قبضہ کے خلاف تحریک جاری رہی۔ لیکن یہودی اپنا ناپاک منصوبہ والا کھیل کھیلتا رہا، شہریوں کو پریشان کرنا، بچوں کو ناحق قتل کرنا، عورتوں پر ستم ڈھانا یہ سب ان کا پرانا حربہ ہے جو برابر استعمال کیا جاتا رہاہے اور ہنوز جاری ہے۔ مگر سلام ہے اس قوم کو جس کے بچے عرب کے فوجی جرنیلوں سے اچھے ہیں، جس کے بوڑھے عرب کے نوجوانوں سے زیادہ جوان ہیں، جن کے رگ و ریشہ میں مسجد اقصیٰ کی محبت پیوست ہے، جو نہتے ہیں مگر یہودی فوجی اپنے تمام تر اسلحہ کے باوجود بے بس نظر آتے ہیں۔ سلام ہے ان جیالوں کو جو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر مسجد اقصیٰ کی حفاظت کررہے ہیں، کتنے معصوم ہیں جو ان کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں، کتنی عورتیں ہیں جو روز بیوگی کا سہتی ہیں، کتنے گھر مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے قربان ہوچکے ہیں، مگر پھر بھی وہ مثل جبال ڈٹے ہوئے ہیں۔
ابھی رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں فلسطین کے شیخ جراح محلہ کو یہودیوں نے وہاں کے مقامی باشندوں سے خالی کرانا چاہا، تو اس کے دفاع میں فلسطینی عوام نے بھی اپنا حق دفاع استعمال کیا، تو یہودیوں کی طرف سے ظالمانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو 11 دنوں تک جاری رہا، مگر اللہ کے نیک بندے ڈٹے رہے اور یہودیوں کا جم کر مقابلہ کیا ۔بالآخر اسرائیل نے شکست تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی(Ceasefire) کا اعلان کردیا، اور اپنی پسپائی تسلیم کرلی۔اس موقع پر فلسطینیوں کا خوش ہونا بالکل فطری تھا۔ چنانچہ اس کا اظہار ہوا اور 21 مئی 2021 یوم جمعہ کو انہوں نے فتح کے طور پر منایا۔ فلسطینیوں خاص طور سے حماس کے عزائم اتنے بلند ہیں کہ ارض مقدس کو غیر ملکی استعمار سے آزادی کے خواہاں ہیں۔ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ ہر لحاظ سے فلسطینیوں کی حفاظت فرما اور ان کی نصرت و اعانت فرما اور بیت المقدس اور ارض فلسطین سے ناپاک یہودیوں کا خاتمہ فرمائے۔آمین یارب العالمین۔
فون نمبر۔ 9472783918