منافقوں کے شہر میں ہے مشکلوں میں جاں
یہ جا بھی چھوڑ دوں تو پھر میں جائوں گا کہاں
جو کل تھے دھڑکنوں میں دمِ صبح کی نودید
وہ لوگ سب گئے کہاں ہیں بس خموشیاں
میرا تو روم روم ہے تمہارا قرض دار
اُتار کر ہی جا میں پائوں سوئے آسماں
اگر چہ اب سبھی نے کی ہیں کھڑکیاں بھی بند
چُھپا سکیں گے کس طرح چراغ کا دھواں
عزیزِ جاں یہ نام و نسب سب نصیب کا
مِرا ہے کیا یہ شبد ہی رہیں گے اک نشاں
مشتاق مہدیؔ
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر9419072053
تم نے سیکھا سیاستیں کرنا
ہم سے پوچھو محبتیں کرنا
تیری فطرت ہے تتلیوں جیسی
شاخِ گل پر شرارتیں کرنا
کیا عدالت یہی ہے سورج کی
تیرگی کی وکالتیں کرنا
تیرا مسکن گلاب ہے ' خوشبو
پھول سے اب نہ ہجرتیں کرنا
صبح تک جلنا پے چراغ اگر
آندھیوں سے رقابتں کرنا
اُن پرندوں کی ایک عادت تھی
گھونسلے میں عبادتیں کرنا
چشمِ گریہ فقیر کی پڑھنا
یاد ہیں وہ تلاوتیں کرنا
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛7780806455
سیاہ رات میں، جگنو کو ساتھ رکھتے ہیں
سفر میں ہم، تِری خوشبو کو ساتھ رکھتے ہیں
تمام عمر، ہے دُکھوں سے فرار، نا ممکن
جو قہقہے ہیں، وہ آنسو کو ساتھ رکھتے ہیں
بدل دیا ہے سیاست نے ساری قدروں کو
شریف لوگ بھی، سادھو کو ساتھ رکھتے ہیں
بہادری کی روایت بدل دی دنیا نے
وہ سوُرما ہیں جو ڈاکو کو ساتھ رکھتے ہیں
جسے زمانہ محبت کا نام دیتا ہے
رئیسؔ، ہم اُسی خوشبو کو ساتھ رکھتے ہیں
رئیس ؔ صِدّیقی
سابق آئی بی ایس افسرپرسار بھارتی ، دہلی
موبائل نمبر؛9810141528
ہیں یوں رقیب شہر میں رہزن کہاں نہیں
کوئی وفا شناس نہیں مہرباں نہیں
مجھکو امیرِ شہر کے محلوں سے غرض کیا
یارب مرے نصیب میں ٹوٹا مکاں نہیں
قسمت شکستہ اور سیہ فرش ِآرزو
نکلا نہ مہتاب کبھی کہکشاں نہیں
سہتے رہی عذاب جدائی کا فاختہ
در قید پھول پات نہیں باغباں نہیں
جن کو بہت غرور تھا مال و منال پر
دنیا میں آج ان کا کچھ نام و نشاں نہیں
عارفؔ بتاؤ حال سنائیں کسے یہاں
اس بھیڑ میں ہمارا کوئی ہم زباں نہیں
جاوید عارف
شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298
تری نظر کے تیر چلے ہیں
مرے جگر کو چیر چلے ہیں
عشق وحسن میں جنگ ہو ئی جب
ہار کے دل کو بیر چلے ہیں
لاج بُھلا کے عشق میں ساری
رانجھا سنگ جوں ہیر چلےہیں
مست دِوانے ہو کے ایسے
سادھو سنت و پیر چلے ہیں
لکھتا منیؔ غزل میں ہے جو
لکھ کے سا ؔحر میر ؔچلے ہیں
ہریش کمار منیؔ
بھدرواہ،جموں، موبائل نمبر؛9906397577
کاغذی پھولوں سے ہی اب سج رہا بازار ہے
ہر طرف اس ملک میں اُجڑا ہوا گلزار ہے
کوئی خنجر گھونپتا ،کوئی سجاتا ہے چِتا
کیا نبھاتا آدمی شیطان کا کردار ہے
آج کے شاہوں نے کھویا شرم کا احساس بھی
سنت صوفی ہی نہیں ہر شخص یاں بیزار ہے
نرک جیسی ہے یہ دنیا سرگ ہوسکتی نہیں
جابروں کی ہو رہی مظلوم پر یلغار ہے
تھا ترانوں کا زمانہ اب نہیں مطرب سعیدؔ
ساز ٹوٹے سب کے سب بارود کی جھنکار ہے
سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906355293
سایۂ برگِ گُل سے کل عہدِ وصال کرنا ہے
اور یہ عہد ہم کو در وقتِ زوال کرنا ہے
پہلے تو تیرے عکس پر چادرِ ہجر چڑھنی ہے
پھر ترے لمس کو ہمیں خواب و خیال کرنا ہے
باندھ کر گانٹھ پیروں میں اب وفا کی ڈوری سے
پنجرے میں پرندے کا جینا محال کرنا ہے
ہم کو وفا ہی کرنی ہے اور یوں ہی ہار جانا ہے
اُن کو دغا بھی کرنی ہے اور بے مثال کرنا ہے
آج عداوتوں کی سب رسموں کو ٹوٹ جانا ہے
آج ہواؤں کو چراغوں سے ملال کرنا ہے
ہستی کی انجاں راہ پر تجھ کو اے میرے ہم سفر
خود کو جواب دینا ہے خود سے سوال کرنا ہے
دل کے پناہِ شوق میں دھڑکنیں بستی ہیں مگر
دل کو نگاہِ شوق سے خود کو نڈھال کرنا ہے
ساعد حمزہ مظہرؔ
سرسید آباد بمینہ،سرینگر
موبائل نمبر؛8825054483