سرینگر// شہر اور قصبہ جات کی سڑکوں پر عام دنوں کے دوران دوڑتے آٹو رکھشا ئوں کے پہیہ لاک ڈائون کے نتیجے میں جام ہونے سے وادی کے 13 ہزار آٹو رکھشا ڈرائیور قرضوں میں ڈوب گئے ہیں۔پچھلے تین برسوں سے لوگوں کے انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے آٹو رکھشا چلانے والے ڈرائیوروں کی مالی حالت خستہ ہوچکی ہے۔شہر سرینگر سمیت وادی میں قریب13ہزار آٹو رکھشا ہیں اور ان سے وابستہ 13ہزار ڈرائیوروںکے اہل خانہ کا گذر بسر روزانہ کی کمائی پر ہوتا ہے۔آٹو رکھشا چلانے والے سبھی مالکان نہیں ہوتے بلکہ قریب 25فیصد روزانہ کی بنیاد پر آٹو چلانے ہیں جس کے عوض انہیں مالکان کی جانب سے باضابطہ طور پر ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔دیگر 75 فیصدیا اس سے زیادہ کی تعدادمیں آٹو رکھشا چلانے والے مالکان ہوتے ہیں جنہوں نے بینکوں سے قرض لے کر آٹو رکھشا خرید کر رکھے ہیں اور وہ آٹو چلا کر نہ صرف بینکوں کے قرضوں کی ادائیگی کیا کرتے ہیں بلکہ اہل خانہ کا پیٹ بھی پالتے ہیں۔29 اپریل سے جاری لاک ڈائون کے دوران جہاں مسافر ٹرانسپورٹ بند ہوا، وہیں آٹو رکھشائوں کے پہیہ بھی جام ہوئے۔ آٹو رکھشا انجمن کا کہنا ہے کہ لاک ڈائون کے نتیجے میں روزانہ اس شعبے کو ایک کروڑ سے زیادہ کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،جس کی وجہ سے انکے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے ہوچکے ہیں ۔آل کشمیر آٹو ڈرائیورس ایسوسی ایشن کے صدر فیاض احمد کمار نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ گزشتہ3برسوں سے وہ مسلسل نامساعد صورتحال کا شکار ہو رہے ہیں۔کمار نے کہا کہ ان کے پاس جو جمع پونجی تھی وہ بھی گزشتہ2برسوں دوران ختم ہوگئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سرکار نے اگرچہ کاروبار و دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی مدد کی،تاہم انہیں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ آٹو رکھشا چلاناکوئی کاروبار نہیں ہے بلکہ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا ہے لیکن آٹو رکھشا چلانے والے لوگ واحد ایسے افراد ہیں جنہیں کبھی بھی حکومت کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ آٹو رکھشا چلانے والے ڈرائیور معاشرے کے سب سے مفلوک الحال لوگ ہیں جو مشکل سے آٹر رکھشا چلا کر اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے علاوہ اپنے کنبے کا پیٹ پالتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آٹو رکھشا چلانے والے کوئی ٹرانسپورٹر نہیں یا کوئی سرمایہ دار طبقہ نہیں بلکہ غریب لوگ ہیں جنہوں نے بینکوں سے قرضہ لیکر اپنی روزی روٹی کمانے کا ذریعہ پیدا کیا ہے لیکن پچھلے دو برسوں اور اب پچھلے دو مہینوں سے وہ پھر فاقہ کشی کا شکار ہورہے ہیں۔