بُرے خیالات:
شیطان وہیں حملہ کرتاہے جہاں ایمان کی دولت ہو
سوال:۱-بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ،حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ،قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔اُن خیالات کوزبان پر لانا بھی مشکل ہے ،اُن خیالات کو دفع کرنے کے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ،دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت … سرینگر
جواب:۱-بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؒ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہاکہ یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔
اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے ۔ عرض کیا گیا کیسے ؟تو ارشاد فرمایاچور وہاں ہی آتاہے کہ جہاں مال ہوتاہے ۔
جب ایسابُرے خیال آئیں تو باربار استغفار اور لاحول پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔ آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے ۔ ll
بچے کوکلمہ طیبہ سکھانا والدین پر شرعی اور ناگزیر فرض
سوال: بچہ کے پیدا ہونے پر کیا کیا حکم ہے؟ نمبروار درج فرمائیں۔
قرۃ العین …سرینگر
جواب: بچہ پیدا ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ پھر جتنا جلد ہو سکے، بچے کو نہلا دیں، اس کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں، پھر تحنیک کریں یعنی کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجورچبا کر اس کا لعاب بچے کے منہ میں ڈالیں یا شہد کے ایک دو قطرے بچے کے منہ میں ٹپکائیں۔اس کے بعد ایک ہفتہ کے اندر اندر، اور زیادہ بہتر ہے کہ تین دن کے اندر اندر ،بچے کا نام مقرر کریں۔ نام رکھنے میں خالص اسلامی نام رکھنے کا اہتمام کریں۔ ایسا نیا اور انوکھا یا منفرد نام رکھنے کا کام ہرگز درست نہیں ہے جس سے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ بچہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، جیسے بلال نام ہو تو ہر شخص یہ سمجھے کہ یہ مسلمان ہے لیکن اگر بلائول رکھا جائے تو یہ اسلامی نام نہیں ہے یا انصار نام رکھیں تو یہ اسلامی نام مگر رخسار رکھیں تو یہ خالص اسلامی نہیں۔اس کے بعد جب بچے کا سرپختہ ہو جائے تو سر کے بال مونڈھ کر ان بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کر دیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ دس گرام ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد اگر مالی گنجائش ہو تو عقیقہ کریں یعنی بیٹے کے پیدا ہونے پر دو بھیڑ یا بکرے اور بیٹی کے پیدا ہونے پر ایک ذبح کیا جائے اور قربانی کے گوشت کی طرح استعمال کریں۔
یہ عقیقہ ساتویں دن کریں مثلاً بچہ اگر جمعہ کے دن پیدا ہوا ہے تو جمعرات کے دن اور اگر منگل کو مثلاً پیدا ہوا ہے تو پیر کے دن عقیقہ کریں یہ ساتواں دن ہوگا۔
پھر جونہی بچہ بولنا شروع کر دے مثلاً وہ بابا، ماما کہنے لگے اور عموماً بچہ کی زبان پر ازخود یہی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور وہ فکر اور تسلسل سے لگاتار یہی بولتا رہتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کے اندر بولنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوگئی بس اس وقت سب سے پہلے اللہ اللہ سکھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ اس کی زبان پر یہی جاری جائے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد جب وہ باقاعدہ الفاظ بولنے لگے تو سب سے پہلے کلمہ لا الٰہ الا اللہ ،سکھانا والدین پر لازم ہے او ریہ بچے کا والدین پر ایک شرعی اور ناگزیر حق ہے۔ یہ اسلامی فرض ہے۔ اس لئے اس میں ہرگز کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔
عطیہ خون … شرعی احکام
سوال: کیا ایک مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنا خون کسی خون کے ضرورت مند بیمار کو چڑھانے کے لئے نکلوا دے اور اس خون کو بغیر کسی معاوضہ کے پیش کرے، کیا ایک مسلمان کو اپنا خون صرف اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ہی دینا ہوتا ہے یا خون دینے میں رشتہ داری کی کوئی قید نہیں ہے،یعنی ہر ایک حاجت مند بیمار کو خون دینا جائزہے؟
عاشق محمد… سرینگر
جواب: خون دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ خدمت انسانی اور مجبور انسان کو تعاون دینے ، ہمدردی اور باعث اجر و ثواب عمل ہے۔
خون مسلمان غیر مسلم، مرد عورت، اقارب و اجانب کو دینا بھی جائز ہے اور ان سے خون لینا بھی جائز ہے۔
خون دینا جب ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے کا کام ہے تو یہ ہر ضرورت مند کے لئے جائز ہے۔ اس میں کوئی قید یا شرط نہیں، ہاں خون فروخت کرنا حرام ہے لیکن اگر کسی ضرورت مند کو بطور عطیہ خون نہ ملے تو خون خرید کر ضرورت پورا کرنا شرعاً جائز ہے۔
نکاح نصف ایمان ہے
سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث میں یہ بیان ہوا کہ نکاح کرنا آدھا ایمان ہے۔ اگر یہ حدیث ہے تو اس کے الفاظ کیا ہیں اور نکاح آدھا ایمان کیسے ہے اس کی وضاحت کریں؟
عابد علی…لال بازار سرینگر
جواب: یہ بات درست ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علی ہوسلم نے ارشاد فرمایا کہ نکاح نصف دین ہے۔ چنانچہ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے۔
حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو اپنے نصف دین کو مکمل و محفوظ کرلیتا ہے۔ اب اس کو چاہئے کہ بقیہ نصف دین کے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔
اس حدیث کے متعلق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انسان عموماً دو ہی وجہوں سے گناہ کرتا ہے، شرمگاہ اور پیٹ۔یعنی جنسی جذبات کی بناء پر اور کھانے پینے کی وجہ سے۔
جب نکاح کر لیا تو اب زنا،بدنظری، غیر محرم سے تعلقات قائم کرنے کے جذبہ سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب نظر کی طہارت، عفت و عصمت کی حفاظت، پاک دامنی اور حیائ، نظر اور خیالات کی یکسوئی اور غلط رُخ کے احساسات اور تخیلات سے بچائو حاصل ہونے کا سامان مل گیا تو دین کو تباہ کرنے والے ایک سوراخ کو بند کرنے کا موقعہ مل گیا۔ اب بقیہ نصف یعنی کھانے پینے کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں اُس کی فکر کرے۔ اس میں حرام دولت، چوری، رشوت ، دھوکہ،فریب اور ہر طرح غیرشرعی اکل و شرب شامل ہے۔