مساجد میں بجلی کا استعمال اور فیس کی ادائیگی
س:۱- آج کل گرمی کی وجہ سے مسجدوں میں ائرکنڈیشنز لگائے جارہے ہیں۔ التماس ہے کہ اگرمحکمہ بجلی کو فیس ادانہ کی جائے تو ایسی مسجدوں میں نمازوں کا کیا حال ہوگا ؟
غلام مصطفی علوی …سرینگر
جواب:-مسجد میں ائرکنڈیشن کا انتظام دُرست ہے لیکن جیسے روشنی کے انتظام کے لئے بجلی فیس اداکرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح ائرکنڈیشن میں صرف ہونے والی بجلی ادا کرنا بھی ضروری ہے ۔ اگرخدانخواستہ بجلی فیس ادا نہ کی جائے تو نماز تو پھر بھی ادا ہوجاتی ہے مگر بجلی کی فیس ادا نہ کرنے کا گناہ برقرار رہے گا ۔
بجلی کی فیس ادا کرنے کا سب سے بہتر اورمحتاط طریقہ میٹر لگانا ہے تاکہ روشنی ، پنکھوں اور ائرکنڈیشن میں جتنی بجلی خرچ ہو میٹر کے ذ ریعہ اُس کی پوری مقدار سامنے آئے اور پھر اتنی ہی فیس ادا کریں ۔
یہ بات ایمانی غیرت کے خلاف ہے کہ مسلمان اللہ کے گھر میں اپنی راحت کا انتظام کریں مگر اُس کا غیر شرعی طریقہ اپنائیں ۔
جیسے چوری کی لکڑی سے حمام گرم کرنا ، چوری کے پنکھوں سے ٹھنڈک کا انتظام کرنا یا چوری کے قالین نما جائے نماز مسجد میں بچھانا غلط ہے ۔ ایسے ہی بجلی استعمال کرکے اُس کی فیس ادا نہ کرنا غیر شرعی ہے۔ ایسی عبادت جس میں کسی غیر شرعی چیز کی آمیزش ہو وہ کیسے اللہ کی رضا کا سبب بن سکے گی ۔ اس لئے اپنے مساجد کا بہتر سے بہتر انتظام کرنا جیسے تقاضۂ ایمان ہے ۔ایسے ہی اُس انتظام کو حلال طریقہ سے چلانا بھی مقتضائے دین وایمان ہے ۔
………
حلال جانوروں کے کون اعضاء کھانا جائزل نہیں
س:۱-حلال جانور کے ’’خصیتین‘‘ کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔ عام خیال میں ان کے کھانے میں کوئی قبادت نہیں ، اس میں تھوڑی کراہت ہے ۔ جس کی وجہ سے شادی بیاہ کے موقع پر لوگ ان کو آشپازوں سے چھلوا کر اور پھر تلوا کر مزے لوٹ لوٹ کر کھاتے ہیں ۔اب اسی پر بس نہیں رہا ، آشپاز ان کو اب رستہ اور گشتابہ کے گوشت کے ساتھ کوٹ کر ملاتے ہیں ۔
س:۲- اوجڑی کے استعمال کے بارے میں شرعی حیثیت کیا ہے کیونکہ عرصۂ دراز سے جب سے وازہ وان کا وجود ظہور پذیر ہوا ہے تب سے اوجڑی کی ایک ضیافت ’’میتھی‘‘ ترامی پر سر فہرست ہوتی ہے ۔
س:۳- اگر چند افراد پیش امام کے پیچھے اقتداء کے بعد اس کے پیٹھ پیچھے دشنام درازی اور بُرا بھلا کہیں یا تواتر کے ساتھ یہ عمل کرتے رہیں ۔ ان چند نمازیوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا وہ امام مذکورہ کے پیچھے برابر اقتداء بھی کرتے رہیںگے اور دشنام درازی کا سلسلہ بھی جاری وساری رکھیں ۔ وضاحتاً جواب سے مستفید فرمائیں ۔
بشارت احمد بابا، سرینگر
جواب:۱-حلال جانور کی سات چیزیں کھانا حدیث کی رو سے منع ہیں ۔ یہ حدیث بیہقی ،طبرانی میں موجود ہے ۔ اُن سات چیزوں میں سے ایک خصیتین بھی ہیں لہٰذا یہ کھانا بھی ممنوع ہیں ۔ فقہ اسلامی کی کتابوں میں یہی لکھا ہے ۔
جواب:۲- اوجڑی اچھی طرح صاف کی جائے تو وہ کھانا جائز ہے ۔نہ کسی حدیث میں اس کی ممانعت ہے نہ کسی امام مجتہد نے اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا حکم لکھاہے اور نہ ہی دنیا میں کسی جگہ کے علماء یا عوام اس کو مکروہ یا حرام قرار دیتے ہیں۔ اسی لئے کشمیر میں صدیوں سے اس کو کھانے وکھلانے کا رواج ہے ۔ آج تک کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ کوئی ناجائز ہے ۔فقہ اسلامی کی کسی بھی مستند کتاب میں بھی اس کے ممنوع ہونے کی کوئی بات کہیں منقول نہیں ۔فتاویٰ کی کتابوں میں صراحتاً موجود ہے کہ یہ حلال ہے ۔ اس لئے اوجڑی کھانے میں مضائقہ نہیں ہے ۔
……………
امام کو دشنام کرنا گناہِ کبیرہ
جواب:۳- حدیث میں ہے کہ مومن کو گالی دنیا فسق ہے ۔(بخاری)
امام کا حق تو عام نمازیوں سے کہیں برتر ہے ۔ اس لئے اس کو دشنام طرازی کا نشانہ بنانا زیادہ بُرا ہے ۔ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اس پر توبہ لازم ہے ۔ امام میں کوئی کمی یا نقص ہو تو حکمت او رنرمی سے اُس کو بتایا جائے کہ یہ کمی دور کریں مگر غیبت کرنا ، پس پست بُرا بھلا کہنا ،لعن طعن کرنا اور بہتان طرازی سخت گناہ ہے ۔
ایسا شخص جو اُس امام کے پیچھے نماز بھی پڑھے اور اُسی پر طعن وتشنیع بھی کرے ، وہ کئی گناہوں کامرتکب ہوجاتاہے اس کے لئے توبہ استغفاربھی لازم ہے اور اپنی اصلاح کرنا اور اس غیر شرعی طرز عمل سے اجتناب کرنا بھی لازم ہے ۔
……………
مشترکہ کاروبار سے خرچہ اُٹھانے کا معاملہ
س:-چند بھائی اکٹھے کاروبار کرتے ہیں اور ہرایک بھائی ماہانہ یکساں رقم خرچے کے لئے اٹھاتاہے ۔ کچھ بھائیوں کا اس رقم سے اچھی طرح گزر بسر ہوتاہے جب کہ کچھ بھائیوں کا گزارہ مشکل ہوجاتاہے حتیٰ کہ بیمار کے لئے دوا ئی وغیرہ خریدنے کے لئے بھی قرضہ لینا پڑتاہے اور کھانے پینے اور پہننے میں نہایت سادگی اپنانے کے بعد بھی علاج کے لئے مقروض ہوناپڑتاہے ۔ کیا شریعت میں اس چیز کا کوئی حل موجود ہے کہ مشترکہ کاروبار کے ہوتے ہوئے عیال دار بھائی کو چھوٹ ملے جس سے وہ بھی زندگی کے دن خوشحالی سے گزار سکے ۔
عنایت اللہ …گاندربل ،کشمیر
جواب:-مشترکہ خاندان میں متعدد برادران ایک ساتھ رہائش پذیر ہوں تو جس بھائی کے خرچے زیادہ اور آمدنی ناکافی ہو تو دوسرے بھائیوں پریہ اسلامی فریضہ ہے کہ وہ صلہ رحمی کریں ، حق قرابت اور اخوت نسبتی ودینی کی رعایت کرتے ہوئے اُس پر کم سے کم بار ڈالیں اور جب عیال کثیر کی بناء پر اُس کومقروض ہوناپڑتاہے تو دوسرے بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اس صورتحال میں تعاون اور اعانت کا روّیہ اپنائیں ۔حتیٰ کہ اگراُس کے قرضہ کی ادائیگی میں اس کو صدقہ دیں تو یہ بھی درست ہے۔گھر کے خرچے کے لئے مساوی رقم لینے پر اگر کسی بھائی کو واقعتاً بارپڑتاہے تو یا تو اس سے خرچہ کم لیں اور یا اس کے انفرادی خرچے مثلاً علاج ،تعلیم،کپڑے وغیرہ کے لئے اپنی مخصوص رقم سے مدد کریں ۔ اس طرح قرآنی حکم کے مطابق ذوی القربیٰ کا حق بھی ادا ہوگا اور صلہ رحمی کا حکم بھی پوراہوگااور یہ بھائی اور اس کے عیال اُن کا احسان مند ہوکر ان کے ساتھ اخلاقی طور پر معاون ومددگاربھی ہوگا۔
……………
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ مگر وراثت سے محرومی کا سبب نہیں
سوال:-ایک شخص ، جس نے اپنی اولاد کو ہررنگ میں آباد کیا ، انہیں مکانات تعمیر کرکے دیئے ،بڑھاپے میں سبھی اولاد کے ہاتھوں دغا کا شکار ہو جاتا ہے۔بالآخر اپنے داماد کے گھر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔جہاں بیماری کی حالت میں کوئی بیٹا اس کے علاج معالجہ اور دیکھ ریکھ نہیں کرتا۔ رحلت کرنے پر اُسے کسی غیر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا جاتاہے ۔ عرصۂ دراز کے بعد اس کی اولاد اُس قبرستان کے حصے کو اپنا ورثہ تصور کرتے ہیں ۔ کیا یہ دُرست ہے ؟
شیخ عبدالرحمان … بتہ مالو ،سرینگر
جواب :-والدین کے حقوق قرآن وحدیث سے تفصیل وتاکید کے ساتھ ثابت ہیں اور نافرمانی کوحرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گناہ کبیرہ میں سب سے بڑا شرک ہے والدین کی نافرمانی ہے ۔ ایک حدیث میں فرمایا کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے او راللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے ۔
والدین کے حقوق میں خدمت ،اطاعت، ضروریات کو پورا کرنے میں کفالت اور ہر طرح کی راحت پہنچانا لازم ہے۔ اگرکوئی اولاد والدین کے ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہو تو اُس پر توبہ واستغفار بھی لازم ہے اور کثرت سے والدین کے مقبروں پر جانا بھی اور اُن کے لئے تسلسل سے واہتمام سے وہ دعا پڑھنا جو قرآن کریم میں ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ جوسورۃ اسراء میں ہے ۔ اولاد اگر پوری طرح نافرمان بھی رہی ہو تو بھی وہ اپنے والدین کی وراثت سے محروم نہیں ہوں گے ۔ اس لئے وراثت کا تعلق قرابت سے ہے ۔ خدمت اور حسن سلوک سے نہیں ہے ۔ وراثت کا حق جیسے فرمان بردار اطاعت گزار اور وفاشعار اولاد ہے کو اسی طرح نافرمان اور حقوق ادا نہ کرنے والی اولاد کو بھی ہے مگر نافرمانی اور والدین کو ذہنی یا جسمانی ایذارسانی اور حقوق کی عدم ادائیگی کی سزا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ہوگی۔
……………
وراثت کی تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی ضروری
سوال:۱۔ ایک شخص کی وفات ہوگئی، اس کے ذمہ لوگوں کا قرضہ بھی ہے اور وارث بھی ہیں۔ اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد صرف اتنی ہے یا تو قرضہ ادا ہوگا یا اس کے وارثوں کو وراثت کے طور پر دیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے وارثوں کو وراثت دی جائے یا قرض داروں کو قرض دیا جائے؟
سوال :۲۔اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا و اور وہ مر جائے تو اس کی بیوی کو وراثت ملے گی یا مہر ملے گا یا دونوں چیزیں؟
یاسمین جان…سرینگر
جواب:۱ -وفات پانے والے شخص کے ذمہ اگر قرض ہے تو پہلے قرض ادا کرنا لازم ہے اور اگر وارثوں کو وراثت میں لینے کے لئے کچھ نہ بچے اور سارا مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے تو یہی کرنا ضروری ہے۔ وارثوں کو حق وراثت قرض کی ادائیگی سے پہلے ہے نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن نے وارثوں کے حصے جہاں بیان کئے ہیں وہاں جگہ جگہ یہی کہا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد یہ حصہ وراثت وارث کو دیا جائے۔بہرحال قرض مقدم ہے اور وراثت میں حصہ لینا اس کے بعد ہے۔
جواب: ۲۔ جس عورت کا مہر باقی ہو اسے اپنے شوہر کی جائیداد سے مہر لینے کا بھی حق ہے اور وراثت لینے کا بھی حق ہے اور یہ دونوں چیز لینا اس کا شرعی حق ہے۔