سرینگر// جھیل ڈل کی خاموش لہروں پر پانی میں ہچکولے کھاتے شکارے اگرچہ سیلانیوں کے منتظر ہیں تاہم عالمگیر وبائی صورتحال اور بندشوں کے پیش نظر شکارہ بان ناامیدی کا شکار ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو90کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا،جبکہ سرکاری راحتی پیکیج سے بھی ابھی تک نصف شعبہ محروم ہے۔ شکارا بان اگرچہ روزانہ حسب روایت اپنے کام پر نکلتے ہیں تاہم شام کو نا امیدی لیکر وہ خالی ہاتھ گھروںکو لوٹتے ہیں۔وادی میں جھیل ڈل،جھیل ولر،مانسبل،آنچار اور دریائے جہلم میں شکارہ بان اپنی روزی روٹی کاانتظام کرتے ہیںاور قریب ان جگہوں پر4500 شکارے اور کشتیاں پانی کی لہروں پرتیرتی ہیںاور ان کے مالکان اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کی نامساعد صورتحال نے تاہم کشتی بانوں اور کشتی مالکان کو فاقہ کشی کا شکار بنا دیا ہے۔ اگست2019کے بعد سیاسی اتھل پتھل اور گزشتہ برس کرونا کرفیوں کے بعد امسال کرونا بندشوں نے اس طبقے سے وابستہ لوگوں کو مفلوک الحال بنا دیا ہے،اور وہ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس شعبے کو قریب90 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کشمیر شکارہ ایسو سی ایشن کے صدر حاجی ولی محمد نے بتایا کہ جھیل ڈل میں قریب3ہزار کشتیاں اور شکارے ہیں،جو جھیل کے مختلف حصوں بشمول نشاط و شالیمار، نہرو پاک،بلیوارڑ،نگین جھیل اور حضرت بل میں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ سیاحت نے 100روز کو سیاحتی سیزن قرار دیا ہے،اور ان ایام میں اوسط فی شکارہ1000ہزار روپے کی کمائی کرتا ہے جبکہ باقی ایام میں500روپے کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ حاجی ولی محمد نے کہا کہ دیگر مقامات پر بھی قریب2500 شکارے اور کشتیاں ہیں جو سیزن میں500روپے اور بغیر سیزن300روپے کماتے ہیں۔ کشمیر شکارہ ایسو سی ایشن کے صدر نے بتایا کہ سال 2019میں شکارہ بانوں و مالکان کو33کروڑ روپے کے نقصانات سے دو چار ہونا پڑا،جبکہ گزشتہ برس کرونا کرفیو کے نتیجے میں44 کروڑ روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ ولی محمد نے بتایا کہ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ امسال کرونا کرفیو کے نتیجے میں شکارہ بانوں کو14کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ شکارہ بانوں کا کہنا ہے کہ وہ در در ٹھوکریںکھانے پر مجبور ہو رہے ہیں اور انہیں مایوسی کے سوا اور کچھ حاصل نہیںہو رہا ہے۔جھیل ڈل میں شکارہ بانوں کا ایک حصہ ایسا بھی ہے،جن کا روزگار سیاحوں اور سیلانیوں پر منحصر ہے،اور یہ شکارہ والے ہاوس بوٹ میں ٹھہرے سیلانیوں کو کشمیری دست کاری اور دیگر مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔ حاجی ولی محمد نے بتایا کہ گزشتہ برس اگرچہ لیفٹنٹ گورنر نے شکارہ بانوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا،تاہم ابھی تک شعبے سے وابستہ نصف لوگوں کو یہ امداد دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ کسی کشتی بان کو3ہزار،کسی کو6اور کسی کو9ہزار روپے کی امداد بنک کھاتوں مین جمع کی گئی تاہم ابھی تک تمام لوگوں کو اس دائرے میں نہیں لایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امسال جس پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے وہ بھی ناکافی ہے کیونکہ ایک ہزار ماہانہ امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ وادی میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہر ایک کاروبار کے تابوت میں صرف آخری کیل ٹھوکنا باقی ہے اور اس میں کشتی بان بھی شامل ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ لوگ بھی دیگر تاجروں کی طرح اس وقت کے منتظر نظر آتے ہیں جو وادی مین کاروباری سرگرمیاں پھر شباب اور جوبن پر پہنچ جائے گی۔