جموں کشمیر میں حکام نے مزید 6 اضلاع میں ہفتہ وارکورونا کرفیو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ریاسی میں اسے دوبارہ نافذ کردیا گیا ہے۔ابھی تک مرکزی زیر انتظام خطے میں 20 میں سے 13اضلاع میں ہفتہ وار بندشیں کو ہٹایا گیا ہے۔جن 6اضلاع سے بندشیں ہٹائی گئیں ہیں ان میں پونچھ، راجوری، اننت ناگ، بارہمولہ، بڈگام اور پلوامہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کل کے حکم نامہ میںشاپنگ مالوں اور ریستورانوں کو بھی راحت دی گئی ہے جو اپنی سرگرمیاں پچاس فیصد صارفین کے ساتھ بحال کرسکتے ہیں۔مجموعی طور پر دیکھاجائے تو جموںوکشمیر میں حالات بتدریج معمول پر آرہے ہیں ۔جوں جوں کورونا معاملات میں کمی آرہی ہے ،لاک ڈائون کا سلسلہ بھی نرم ہوتا جارہا ہے۔پہلے مرحلہ میں جہاں مکمل لاک ڈائون کو جزوی کیاگیا ۔اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں جمعہ کی شام تا پیر کی صبح تک ہفتہ وار کرفیو کا سلسلہ شروع کیاگیالیکن جب کورونا حالات میںمزید بہتری دیکھی گئی تو مرحلہ وار بنیادوں پر اُن اضلاع سے ہفتہ وار کورونا لاک ڈائون بھی ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیاگیاجہاں کووڈ کے حوالے سے صورتحال میں نمایاں بہتری آئی تھی۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت گزشتہ روز مزید6اضلاع سے ہفتہ وار لاک ڈائون ہٹایاگیا جبکہ مجموعی طور پر پورے جموںوکشمیر میں مزید کچھ راحتیں دی گئیں تاہم تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں اور مستقبل قریب میں اس حوالے سے اچھی خبر کی امید کی جارہی ہے ۔جہاں حکومت انتہائی ہوشمندی کے ساتھ زندگی کو مرحلہ وار بنیادوںپر پورے جموںوکشمیرمیں معمول پر لانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اور کووڈ ٹیکہ کاری و جانچ کی جارحانہ مہم کے ساتھ ساتھ عوام کو راحت بھی دی جارہی ہے وہیں عوام پربھی لازم آتا ہے کہ وہ کووڈ مناسب طریقہ کار اپنائیں جس میں سماجی دوری برقرار رکھنا،فیس ماسک پہننا اور ہاتھوں کی مسلسل صفائی لازمی ہے ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اتنا کچھ سہنے کے باوجود بھی ہم میں شعور پیدا نہیں ہورہا ہے ۔بلاشبہ ابتدائی ایام میں کووڈ احتیاطی اقدامات پر مکمل عمل درآمد کیاجارہا تھا لیکن اب جوں جوں معمولات بحال ہوتے چلے جارہے ہیں تو سماجی دوریوں کا کلچر بھی فوت ہوتا چلا جارہا ہے اور چہرے کا ماسک بھی بتدریج غائب ہی ہورہا ہے جبکہ ہاتھوںکی صفائی نہ ہونے کے برابر رہی ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ دو روز قبل ڈپٹی کمشنر ادھم پور میں ایک پریس کانفرنس میں یہ شکوہ کرنا پڑا کہ لوگ چہرے کا ماسک نہ پہننے پر پانچ سو روپے کا جرمانہ دینے کیلئے تیار ہیں لیکن بیس روپے کا ماسک لگانا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ایسی غیر ذمہ داری کو موجودہ حالات میں عام فہم الفاظ میں خود کشی ہی قرار دیاجاسکتا ہے کیونکہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ فیس ماسک کورونا سے بچنے میں ایک اہم ہتھیار ہے جبکہ ویکسین ہمیں کوو ڈ سے تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر ہم چہرے کا ماسک نہ پہنیں اور ویکسین لگانے سے ہچکچاہئیں تو یہ افسوسناک صورتحال ہی قرار دی جاسکتی ہے ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کورونا وائرس کہیں گیا نہیںہے اور وہ مڑ مڑ کر واپس لوٹ رہا ہے جبکہ سائنسی تخمینوں کے مطابق تیسری لہر آیاہی چاہتی ہے ۔گزشتہ روز ہی نئی دہلی میںکورونا وائرس پر نظر رکھنے والی مرکزی سرکارکی کمیٹی کے سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر کورونا کے اصولوں پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا گیا تو اکتوبر۔نومبر میں تیسری لہر مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تیسری لہر کے دوران کوئی نیا ویرینٹ پیدا ہوتا ہے تو اس کے نتائج مزید تباہ کن ہوں گے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جوں جوں ٹیکہ کاری مہم آگے بڑھے گی تیسری یا چوتھی لہر کا خدشہ کم ہوتا چلا جائے گا۔سائنسدانوں کی یہ تحقیق ہمارے ہوش ٹھکانے لانے کیلئے کافی ہونی چاہئے اور ہمیں غیر ذمہ داری کا سلسلہ ترک کرکے ذمہ داری شہری ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہئے کیونکہ اگر یوں ہی ہم کووڈ مناسب طریقہ کار سے خائف ہی رہے تو وائرس کے پھیلائو کے امکانات بڑھ سکتے ہیں جو تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے ۔ہمیں یہ سمجھ لیناچاہئے کہ کووڈ کی موجودہ صورتحال کیلئے کافی کوششیں ذمہ دار ہیں اور حکومت کی کوششوں کے بدولت ہی ہم آج اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں اب معمول کی زندگی بس بحال ہونے ہی والی ہے لیکن اگر ہماری غلطیوں کی وجہ سے کووڈ وائرس ہم پر دوبارہ حاوی ہوجاتا ہے تو ہمیں لینے کے دینے پڑسکتے ہیں اور اُس صورت میں جس جانی و مالی نقصان سے ہمیں مسلسل تیسری دفعہ دوچار ہونا پڑے گا،اُس کو برداشت کرنے کے ہم شاید اب متحمل بھی نہیں رہے کیونکہ مسلسل دو مرتبہ کووڈ لاک ڈائون نے جہاں ہمار ی معیشت کو نڈھا ل کرکے رکھا ہے وہیں لا تعداد اموات نے گھروںکے گھر تباہ کردئے ہیں اور مزید اموات کی گنجائش شاید اب نہیںرہی ہے۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ کورونا کے حوالے سے حالات کو مسلسل بہتر ڈگر پر گامزن رکھنے کیلئے لوگ ذمہ دارشہریوں کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حکومت کو اپنا تعاون دیتے رہیں گے کیونکہ اس میں لوگوںکا اپنا فائدہ بھی ہے ۔کرنا کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ایک تو کووڈ ٹیکہ کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے صد فیصد ٹیکہ کاری یقینی بنانی ہے ۔دوم کووڈ مناسب برتائو پر عمل کرکے سماجی دوری برقرار رکھنی ہے اور فیس ماسک کے بغیر گھومنا نہیں ہے ۔اگر ہمیں صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہوئے ان چند باتوں پر مکمل عمل کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم تیسری لہر سے بچ جائیں اور زندگی مکمل طور پٹری پر لوٹ آئے لیکن اگر غیر ذمہ داری یونہی جاری رہی تو معاملات بگڑ بھی سکتے ہیں جس کیلئے ہم خود ہی ذمہ ار ہونگے۔