شرک اور اس کی اقسام
سوال :-کفروشرک کیا ہے ۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کچھ اقسام ہوتی تو ان کو ضروری تفصیل وتحقیق سے تحریر کریں ۔
محمداعظم ملک …جموں
جواب:-شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں یااُس کی صفات میں کسی بھی مخلوق کو اس کا شریک ، مثیل، نظیر یا مماثل مانا جائے ۔ اور کفر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا یا اُس کی کسی لازمی صفت کا سرے سے ہی انکار کردیاجائے ۔
اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور ذات کو بھی ماننا جیسے عیسائی تین خدائوں کے قائل ہیں یا اکثر ہندو کروڑوں خدائوں کو مانتے ہیں تو شرک فی الذات ہے ۔ اللہ کی مخصوص صفات میں سے کسی صفت کو کسی مخلوق کے حق میں تسلیم کرنا یہ شرک فی الصفات ہے ۔مثلاً کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ جیسے اللہ اپنی ذات کے اعتبارسے زندہ ہے اور جیسی غیر فانی زندگی اُسے حاصل ہے یا جیسے اس کی حیات کسی کی محتاج نہیں اسی طرح مخلوق میں سے کسی کی زندگی اور حیات بھی ایسی ہی ہے ۔تو یہ شرک فی الحیات ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ جیسے اللہ کی ذات کو اس کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا علم ہے اور ہر آن اپنی ہر ہر قوم کی ہرہرحالت سے بغیر کسی ذریعہ علم کے وہ واقف ہے ۔ یہ ذات و کلّی صفت علم کسی اور مخلوق کو بھی حاصل تھی تو یہ شرک فی العلم ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ اپنائے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کو ہر ہرمخلوق کی ہر ہرحالت کو ہر وقت دیکھنے اور اس کی ہر ہر آہٹ سننے کی قوت ہے ۔ اس کو اپنی سمع وبصر میں نہ وسائل وآلات کی حاجت ہے اور نہ ہی اس کی یہ صفت کسی حد بندی یا رکاوٹ کو قبول کرتی ہے ،ایسی ہی قوت سماعت بنا قوت بصارت کسی مخلوق کو بھی حاصل ہے تو شرک فی السمع اور شرک فی البصر کہلاتاہے ۔
اگرکوئی شخص یہ سمجھے کہ جیسے اللہ کو نفع ونقصان پہنچانے کی مکمل قدرت حاصل ہے او ر وہ اپنی اس قدرت میں کسی کامحتاج نہیں ہے ایسی ہی صفت قدرت یا کچھ عطا کرنے یا نہ دینے پر قادر ہونے کی صفت اللہ کے علاوہ کسی او رذات کے اندر بھی تھی یا ہے تو شرک فی القدرت ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جیسے عبادت اللہ کے لئے ہوتی ہے اسی طرح کسی مخلوق کی بھی ہوسکتی ہے ۔اس لئے اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کو سجدہ کرنا ، کعبۃ اللہ کے علاوہ کسی اور جگہ کا طواف کرنا ،اللہ کے علاوہ کسی اور کے تقرب کے لئے جانور ذبح کرنا ،اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے تعبد وتقرب کی نیت سے جھکنا، یہ سب شرک فی العبادۃ ہے ۔
اسی کو شرک العبودیت یا شرک فی الالوہیت بھی کہتے ہیں ۔
اسی طرح ایک شرک او ربھی ہے او ر وہ شرک فی الحکم ہے ۔ یعنی کسی مخلوق کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کو بھی یہ حق ہے کہ وہ کسی چیز کو حلال کرے یا حرام کرے یا اس کو بھی یہ اختیار ہے کہ وہ کسی چیز کو عبادت قرار دے یا کسی کام کو گناہ کے زمرے میں رکھے یعنی انسانوں کے لئے حلال وحرام ، جائز وناجائز قراردینے کا اختیار جو اللہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے وہ کسی مخلوق کی طرف منتقل کریں تو یہ شرک فی الحکم ہے ۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پرا رشاد ہے کہ …خبردار سن لو ۔کائنات کی ہر ہر چیز کی تخلیق صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔اسی طرح کائنات میں ہر ہر مخلوق کے لئے ہر ہر فعل او رہر ہر عمل کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق واختیار بھی صرف اسی کے لئے مخصوص ہے ۔
پھر شرک کی دوقسمیں ہیں ۔ شرک اکبر ۔ یہ وہ شرک ہے جس کے نتیجے میں انسان ایمان سے محروم ہو جاتاہے ۔ اس لئے کہ اگرچہ اللہ کی ذات کا انکار نہیںپایا جاتا مگر اللہ کی ذات کے ساتھ ایک غیر اللہ کو شریک ٹھہرایا جاتاہے اور یہ توحید کے سراسر منافی ہے ۔اس شرک میں انسان اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کو معبود یا مسجود یا رازق وغیرہ قرار دیتاہے ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کا غلط ہونا واضح ہواہے ۔تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا ابتداء شرک کی نفی اور توحید کی تخم ریزی سے ہوتی تھی اور خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب سے پہلے اعلان توحید اور نفی شرک کا ہی کیا تھا ۔اس کو شرک اکبر کہاجاتاہے ۔
دوسرا شرک اصغر کہلاتاہے ۔ یہ وہ شر ک ہے جو شرک تو ہے مگر وہ مومن کو ایمان سے خارج نہیں کرتا ہے جیسے حدیث میں ارشاد ہے کہ تھوڑی سی ریاکاری بھی شرک ہے ۔
یاحدیث میں ارشاد ہے جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائی اُس نے شرک کیا یا جس نے مشرکانہ تعویذ گنڈا لٹکایا اُس نے شرک کیا ۔
اس قسم کے شرک کو شرکِ اصغر کہتے ہیں یعنی اس قسم کے شرک کاارتکاب بہت قبیح ہے مگر ایسا شخص خارج ایمان نہیں ہوتا ۔
امام بخاری ؒ نے ان دونوں قسموں کے متعلق اشارہ کرنے او ران کے درمیان فرق کرنے کے لئے یہ عنوان لگایا ہے ۔
کفردون کفر
اس سے ماخوذیہ جملہ بھی ہے ۔ شرک دون شرک اور اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے راہ روی سے نمٹنے کے لئے
اصلاحی کمیٹیاں بنانے کی ضرورت
س:-نوجوان نسل میںاخلاقی بے راہ روی روز افزوں پھیل رہی ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ اس اخلاقی دیوالیہ پن کو روکنے کے لئے علماء اور سماج کے دیگر معززین وذمہ داران کی کوششیں ثمر آور ثابت نہیں ہورہی ہیں ۔نوجوان نسل کی اصلاح کے لئے مشترکہ کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے کن کن باتوں کی طرف توجہ دی جانی چاہئے ؟
صوفی عبدالرشید ، چرارشریف
جواب:-معاشرے میں روزافزوں پھیلتی ہوئی فحاشی ، بے راہ روی ،دین سے دوری ،فیشن پرستی ،نوجوان لڑکوں ولڑکیوں کے غیر شرعی تعلقات وروابط،رشوت خوری ، اخلاقیات سے دوری او ردوسری اقوام کی نقالی جیسے خالص کافرانہ ومشرکانہ کاموں میں بھی دوسری قوموں کی تہذیب کو شوق سے اپنانا، گلے میں لاکٹ ڈالنا، ہاتھوں میں دھاگے باندھنااور انگلیوں میں تانبے اور پیتل کے چھلّے اور کڑے ڈالنا، کانوں میں بالیاں لٹکاناوغیرہ ۔اس طرح کی تمام خرابیوں کے سدباب کے لئے جب معاشرے کے تمام طبقات متحرک ہوجائیں اور تعلیمی نظام چلانے والے مسلمان چاہے وہ پرائیوٹ اسکولوں کے منتظمین ہوں یا سرکاری ،نوجوان نسل کے اس بگاڑ کومحسوس کریں اور پھر کارگر علاج کے لئے کمربستہ ہوجائیں چاہے وہ کتنا ہی تلخ اور مزاجوں کے خلاف کیوں نہ ہو۔
ہر ہر محلہ میں اصلاحی کمیٹیاں بنائی جائیں اور دعوتی انداز کی ایک جامع حکمت عملی کے ذریعہ اصلاح کا کام کریں۔ جس طرح دعوت وتبلیغ سے منسلک ہونے والا نوجوان سنتوں کا عامل اور فیشن سے محفوظ ، تمام قسم کی فحاشی سے دور اور ایک صالح مسلمان جوان بن کر زندگی گزارتاہے اُس قسم کی محنت سے نوجوانوں کو جوڑیں یا اسی نوع کی اصلاحی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔علماء اور مفتیان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان وقلم سے اصلاح کی مساعی جاری رکھیں اور سماج کے بااثر افراد پر لازم ہے کہ وہ اپنے اثر ورسوخ کا صحیح فائدہ اٹھائیں ۔اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے کسی مخصوص طبقہ کو ہی ذمہ دار نہیں بنایا ہے بلکہ امت کا ہر طبقہ اور ہر طبقہ کا ہر فرد اپنی صلاحیتوں ،وسائل اور قوت وقدرت کے بقدر ذمہ دار بھی ہے او رمکلف بھی ۔فضائل تبلیغ میں نہی عن المنکر کی احادیث ملاحظہ کیجئے ،اس میں ہر مسلمان کو منکر کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-اگر کوئی شخص حجامت کا کام کرتاہے اور اُس کی اُجرت بھی حاصل کرتاہوکیا وہ مسجد شریف میں امامت کرسکتاہے ۔کچھ لوگ فرماتے ہیں کہ اس شخص کی امامت جائز نہیں ہے اور کچھ بولتے ہیں یا جائز ہے ۔ قرآن وسنت کے حوالے سے درست جواب چاہتے ہیں۔
غلام محمد وانی ، کرالپورہ
امامت کیلئے کبیرہ گناہ سے بچنا ضروری
جواب:-داڑھی مونڈنا گناہِ کبیرہ ہے ۔ اس گناہ میں تعاون کرنا بھی گناہ ہی ہے ۔ لہٰذا جوشخص دوسروں کی داڑھی مونڈتاہے وہ اس گناہ میں تعاون دیتاہے ۔ جب کہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ گناہ کے کام میں تعاون مت کرو ۔ ایسا شخص امامت کرے تو جیسے دیگر کبائر کاارتکاب کرنے والے شخص کی امامت مکروہ تحریمی ہے ۔اسی طرح اس شخص کی امامت بھی مکروہ تحریمی ہے ۔ دراصل امامت ایک عظیم منصب ہے اور اس منصب کے لئے ضروری ہے کہ جو شخص کسی بھی گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہو وہ اس عہد ہ کے لئے نااہل قرارپائے۔
چنانچہ حضرت نبی علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے جوبہترین شخص وہی امام مقرر کیا جائے اور اسی لئے تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ فاسق شخص کو امامت کے لئے مقرر کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔ داڑھی مونڈنا اور اس میں مدد دینا اسی زمرے میں آتاہے ۔