اردو ادب کا منظرنامہ خواتین سے خالی نہیں ہے۔ خواتین کی جم غفیر موجود ہے ،جو افسانوی صنف کو اپنی قلمی معاونت دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو افسانہ ترقی کے مدارج طے کررہا ہے۔ ابتداسے جس طرح افسانوی ادب کو خواتین کی خدمات حاصل رہی ہے اسی طرح ۲۱ویں صدی میں بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
افسانوی ادب کے منظرنامے پر پروین شیرکانام تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوںنے ہجرت کے مسائل پر افسانہ نیلا لفافہ لکھاہے۔ یہاں ایک نوجوان کی ہجرت کاذکر ہے جو تلاش معاش کے لئے ایک وطن سے دوسرے وطن جاتاہے، لیکن اس کی ہجرت کامنفی اثر اس کے والدین پر کس طرح پڑتاہے اسے مصنفہ نے اس طرح افسانے میں پیش کیاہے ملاحظہ کیجئے :
’’کوشش کے باوجود نیند کاپتہ نہیں ہے۔ رہ رہ کر ایک عجیب سی خامش ستارہی ہے۔ اس دکھی باپ کی غمزدہ آنکھیں یاد آرہی ہیں، جن سے ٹپکے ہوئے آنسومیرے دل پر پتھر بن کر گررہے ہیں۔ جس کے معصوم دل نے میرے اس وعدے پر یقین کرلیاہے۔ جسے میں پورا نہیں کرسکتی ………اس کا باپ اسے آخری بار دیکھنے کو بے چین ہے۔ طویل عرصے تک اس کا انتظار کرتے کرتے اسپتال میں دم توڑ رہاہے۔‘‘
( امریکہ میں خواتین کی اردو خدمات، عبدالقادر غیاث الدین فاروقی، ص-۶۰)
افسانے میں راویہ اور بوڑھے کے ذریعہ ہجرت کے کرب کو پروین شیربیان کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔ پلاٹ کے اعتبار سے بھی یہ افسانہ بہترین کہاجائے گا۔ کیوںکہ واقعات کے بیان میں ربط و تسلسل کاخاس خیال رکھاگیا ہے۔ بے جا طوالت سے گریز کرتے ہوئے پروین شیرنے دریا کو کوزے میں دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی یہ افسانہ قابل ستائش ہے۔
۲۱ویں صدی کی خواتین افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض کانام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ آج وہ ہمارے بیچ نہیں ہیں،لیکن ان کی کہانی ہمیں ان کی یاد دلاتی رہےگی۔ آپ نے بہت ہی کم وقفے میں افسانوی منظرنامے مجموعے یہ تنگ زمین ۱۹۹۸ء ، ابابیلیں لوٹ آئیں گی ۲۰۰۰ء، یمبرزل ۲۰۰۴ء اور میر ارخت سفر ۲۰۰۸ء منظرعام پر آکر داد تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ آپ کے افسانوں میں علاقائیت کا خاص اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سلسلے سے افسانہ کشتی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ چوںکہ آپ کا تعلق کشمیر کے ایک چوراہے پرمبنی ہے۔ جہاں کچھ علاقے میں کرفیو لگاہوا ہے، لیکن کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں کر فیونہ ہوتے ہوئے بھی کرفیو سا ماحول بناہوا ہے۔ اس افسانے میں تین چار کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ ایک کہانی زخمی بچے کی ہے ،دوسری کہانی ہاتھ گاڑی پر لہسن بیچنے والے ضعیف آدمی کی ہے۔ تیسری کہانی نوجوان کی ہے، چوتھی کہانی دلوںکی ہے۔ ان تمام کہانیوں کے حوالے سے ترنم ریاض نے کشمیر کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ تمام فنی عناصر کے حوالے سے یہ افسانہ کامیاب کہاجائے گا۔ الفاظ کے استعمال میں مصنفہ کو مہارت حاصل ہے، وہ ایسے الفاظ استعمال کرتی ہیں جن سے کشمیر کی تہذیب و ثقافت سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً چابیوں کا گچھا، پھرن وکا نگڑی، مٹی کے پیالے، چغہ نما پیرہن، پہاڑی کے ٹیلے ،برف کے تودے، ہاتھ گاڑی ،کسابہ، جھومر ،بالی وغیرہ۔مختصریہ کہ ترنم ریاض کی کہانیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مصنفہ کو فن میں ڈوب کر کچھ پالینے کی جستجو ہے۔ ان کایہ جمالیاتی احساس ان کے افسانوں میں بہت شدت سے محسوس ہوتاہے۔
افسانوی ادب کے عصری منظرنامے پر ثروت خان کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کا تعلق راجستھان سے ہے۔ آپ کے یہاں بھی علاقائیت بھرپور ڈھنگ سے جلوہ نماہے۔ افسانہ لوک عدالت آپ کے عمیق مشاہدے اور تجربے کا منبع نظر آتا ہے۔ اس افسانے میں آپ نے معاشرے میں پھیلی بدعنوانی کو مرکزیت عطا کی ہے۔ وہ کہنا چاہتی ہیں کہ نچلا طبقہ جانوروں سے بدتر زندگی جینے پر مجبور ہے۔ اسی لئے مصنفہ اس افسانے میں دوطبقے کی کہانی کو پیش کرتی نظر آتی ہیں۔
پہلا طبقہ راجپوت گھرانے سے تعلق ہے اور دوسرا طبقہ غریبی کی لائن سے نیچے کی زندگی گزارتا ہے۔ اس غریب طبقہ کو گولا ذات سے منسوب کیاگیاہے۔ کہانی کا ارتقا دو کرداروں کالورام اوردونگر گولا کی گفتگو سے ہوتاہے۔ مختصریہ کہ س افسانے میں ثروت خان نے راجستھان کے راجپوت گھرانے کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ فسادات کا منظرنامہ بھی پیش کیاہے۔ اس سلسلے سے یہ اقتباس دیکھئے:
’’آج کئی مہینے گزر گئے تھے شہرمیں یہ سب ہوتے ہوئے ایسا لگتا تھا اس شہرکا کوئی محافظ نہیں ،کوئی خدا نہیں، کوئی رام نہیں ،کوئی رحیم نہیں ،آدھا شہرسلگ رہا تھا،آدھا اسے سلگا رہا تھا۔ وہاں انسان تو کیا حیوان بھی نہیں تھا ،بس کھوکھلے جسم تھے۔‘‘
( اردو کی خواتین فکشن نگار، مشتاق صدف، ص-۵۱)
مختصریہ کہ سیاسی، سماجی حالات اور گھریلو زندگی کو پیش کرنے میں مصنفہ کامیاب نظر آتی ہیں۔ افسانے کا پلاٹ دلچسپ اور مربوط ہے۔ کرداروں کو پیشکش میں بھی وہ محتاط نظر آتی ہیں۔ کالورام اور ڈونگر گولا رام جیسے کرداروں کو پیش کرکے وہ راجستھان کے غریب طبقہ کی زندگی کے احوال کو پیش کرتی ہیں، جہاں تک اسلوب بیان کی بات ہے تو انہوںنے ہندی الفاظ کے استعمال پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ہندی الفاظ کا استعمال کرنا ان کے اندر علاقائیت کے احساس کو اجاگر کرتاہے۔ وہ الفا اس طرح ہیں۔ داتا دنگائیوں،داہ سنسکار کائرتا، بلاتکار استھان، تیاگ تپسیا۔ اس طرح افسانہ لوک عدالت مصنفہ کی فنی حسیت کو سامنے لانے میں کامیاب نظر آتاہے۔
مندرجہ بالاتا تمام خواتین افسانہ نگاروں کے علاوہ صادقہ نواب سحر، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، غزال ضیغم، تسنیم کوثر، ذکیہ مشہدی وغیرہ کا نام بھی خاص طور سے اہم ہے جن کی کہانیاں ادبی حلقے میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام افسانہ نگاروں نے متنوع موضوعات کی پیشکش پر خصوصی توجہ دی ہے تاکہ زندگی کے شیڈس سے قارئین ادب بہرہ ور ہوسکیں۔ یہاں فن بھی ہے اور فکر بھی ۔لہٰذا یہ کہاجائے گاکہ ۲۱ویں صدی کی خواتین افسانہ نگار اردو افسانے کی بقامیں محو قلم ہیں۔ آپ کی فعالیت سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے۔
(حیدری محلہ ،کرگل)