سرینگر // غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزربسر کرنے والے جموں وکشمیر کے 13لاکھ لوگ موجودہ مہنگائی کے دور میں بنیادی اشیاء کے حصول کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور حکومت ان کے مسائل سے لاتعلق ہے۔ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے افراد کیلئے کوئی پالیسی ترتیب دینی چاہئے تاکہ وہ بھی اپنا گزاراکر سکیں۔ جموں وکشمیر میں 10.35فیصد لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزر بسر کر رہے ہیں اور موجودہ دور میں یہ بڑی آبادی مہنگائی کی مار جھیل رہی ہے۔ ایسے لوگ پہلے 5اگست کے فیصلے سے فاقہ کشی کا شکار ہوئے ،بعد میں انہیں کورونا نے پریشانی سے دو چار کر دیااورفی الوقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے بڑھ جانے کے بعد مہنگائی آسمان کو چھو گئی ہے، ہرچیز مہنگی ہوگئی ہے اور غریب کنبے کے بس میں نہیں کہ وہ خرچہ برداشت کر سکے۔کورونا کی وجہ سے پورے ملک میں 27.1 فیصد بیروزگاری کی شرح پہنچ گئی ہے۔ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 12کروڑ 2لاکھ لوگ بیروز گار ہوگئے ہیں اور ان میں 75فیصد چھوٹے تاجر اور مزدوری کرنے والے شامل ہیں۔سروے میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ کارخانوں،فیکٹریوں، دکانوں ، شاپنک مالز، آن لائن اشیاء پہنچانے والوں اور مزدوری کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔سروے کے مطابق جموں کشمیر میں 6لاکھ کا روزگار چلا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جن کی کمائی صفر اور خرچہ بے تحاشہ ہے اور حکام مہنگائی کے جن پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ایسے مزدوروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے، جنہیں دن میں کبھی کبھار ہی مشکل سے کام ملتا ہے۔معروف تاجر ،سماجی کارکن اور ماہر اقتصادیات شکیل قلندر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ہی خود بہ خود دیگر اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کل0 500اور 10000 میں ایک کنبے کا گزاراکرنا کافی مشکل ہے ،کیونکہ سب چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم رسوئی گیس کی بات کریں تو وہ بھی 900روپے کو پار کر گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے جو سبسڈی فراہم ہوتی تھی اس کو بحال کیا جانا چاہئے ، ایسے لوگوں کیلئے اشیائے ضروریہ کی تمام چیزیں سبسڈی پر فراہم کی جانی چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح روز مرہ کی ضروری اشیاء پر بھی اسی طرز پر سبسڈی فراہم کرنی چاہئے جس طرح چاول پر مل رہی ہے۔