جموںوکشمیر میں کورونا لہرفی الوقت قابو میں ہے۔ حکومت نے معمولات کم وبیش بحال کر دئے ہیں ۔وادی اور جموں صوبہ کے بازار کھل چکے ہیں۔بازاروں میں جس طرح چہل پہل دیکھنے کو مل رہی ہے ،اُس سے تو بظاہر لگ رہا ہے کہ زندگی لوٹ آئی ہے تاہم یہ سب خطرے سے خالی نہیں ہے ۔بلا شبہ ہم مزید بندشوں کے متحمل نہیںہوسکتے تھے کیونکہ ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر چلی گئی تھی تاہم معاشی سرگرمیاں بحا ل کرتے وقت ہمیں اس بات ذہن میںرکھ لینی چاہئے کہ کورونا وائرس کہیں گیا نہیں ہے ۔حکومت نے اَن لاک کرکے دراصل گیند اب عوا م کے پالے میں ڈال دی ہے اور اب یہ لوگوںکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا خیال رکھتے ہوئے اپنی معمول کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں ۔جس طرح سے بازاروں میں جس طرح بھیڑ بھاڑ دیکھی جارہی ہے ،وہ قطعی کوئی اچھا شگون نہیں ہے ۔شہر اور قصہ جات میں لو ک اس طرح بازاروں کا رخ کررہے ہیں جیسے کچھ ہواہی نہیں ہے ۔ہم ابھی بھی بالکل ویسے ہی زندگی جی رہے ہیں جیسے کورونا سے پہلے جی رہے تھے ۔ہم میں کوئی واضح بدلائو دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے ۔بیشتر لوگوں نے فیس ماسک نہیں پہنے ہوتے ہیں۔جسمانی دوریوںکا بھی کوئی پاس ولحاظ نہیں ہے ۔لوگ ایسے امڈ آرہے ہیں جیسے کسی معمول کے کرفیو کے بعد بندشیں ختم کردی گئی ہوں۔لوگوںکو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کوئی معمول کا لاک ڈائون یا کرفیو نہیں تھا اور اس کا تعلق امن وقانون کی صورتحال سے بھی نہیں تھا بلکہ یہ طبی نوعیت کا وبائی لاک ڈائون ہے جس میں جسم وجان کو بچاکر چلنا ہے ۔عمومی نوعیت کے لاک ڈائون اور کرفیو سے کشمیری قطعی غیر مانوس نہیں ہیں اور وہ جانتے ہیںکہ ایسے طویل لاک ڈائونوں سے کیسے باہر نکلنا ہے تاہم آج کالاک ڈائون بالکل مختلف نوعیت کا ہے ۔جیسے لوگ گزشتہ کرفیو کے ایام میں ڈھیل ملتے ہی بازاروں کا رخ کرکے کھلی ہوا میں سانس لیتے تھے ،آج بالکل ویسی صورتحال نہیںہے بلکہ آج باہر ہوائوںمیں زہر گھول رہی ہے ۔باہر کی ہوائیں زہریلی ہیں۔بہترہے کہ گھروںمیں ہی رہیں اور ناگزیر حالات میں ہی باہر نکلیں۔دنیا کے مختلف حصوں میں کورونا وبا کی تیسری لہر دستک دے چکی ہے اور لاک ڈائون پھر سے نافذکیاجارہا ہے کیونکہ وہاں نئے سرے سے کورونا کے معاملات سامنے آرہے ہیں۔وہاں بھی لوگوں نے بالکل ویسی ہی غلطیاں کیں جیسی ہم آج کررہے ہیں۔بلا شبہ ہم نادانستہ طور یہ غلطیاں کررہے ہیں لیکن یہ نادانستی غلطیاں بھاری پڑسکتی ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو ہم اپنی غلطیوںکی وجہ سے پھر اپنے آپ کو گھروں تک محدود نہ کریں۔سمجھ لیں کہ تیسری لہر انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے ۔ماہرین ِ طب کہتے ہیں کہ تیسری لہر کا وائرس اس لئے خطرناک ہوگا کیونکہ اس دوران اُس نے اپنے آپ کو کافی تبدیل کیاہوگا اوروہ ایک طرح سے اب بے قابو ہوگا۔اس لئے سنبھل جائیں اور اپنی تباہی کا سامان خود ہی نہ کریں۔کام کریں لیکن خیال رکھیں کہ کہیں اس کا دام آپ کی زندگی نہ ہو۔بلا شبہ لوگ معمولات کی جانب لوٹ آئیںلیکن خیال رکھیں کہ وائرس ہمارے بیچ ہی موجود ہے۔یہ اب وہ دنیا نہیں رہی ہے جو مارچ 2020قبل تھی بلکہ یہ مکمل طور بدل چکی ہے ۔اب ملنے ملانے کا نہیں ،دوریوںکا زمانہ چل رہاہے ۔جسمانی دوریاں بنائے رکھنے میں ہی عقلمندی ہے۔دلوںکے فاصلے مٹائیں لیکن جسمانی دوریاں بنائے رکھیں۔دلوںمیں قربت ہو تو یہ دوریاں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں۔ایک دفعہ ہم اس وبا ء سے بحفاظت نکلیں تو اس کے بعد ملنے ملانے کیلئے عمر پڑی ہے ۔فی الوقت ہماری ترجیح صرف یہی ہونی چاہئے کہ ہم کسی طرح ان جاں گسل ایام میں اپنا گزارہ کریں ،دو وقت کی روٹی کا بندوبست کریں ۔یہ وقت دولت سمیٹنے کا نہیں ہے اور نہ ہی تجوریاں بھرنے کا ہے بلکہ یہ وقت ہمیں غور وفکر کی دعو ت دیتا ہے ۔یاد کریں ،کل تک ہم اوپر سے جان کی امان مانگ رہے تھے ۔آج اگر قدرے راحت مل چکی ہے تو اوپر والے سے رابطہ منقطع نہ کریں ۔یہ رابطہ جس قدر مستحکم ہوگا ،اُتنا ہی ہمیں اطمینان اور سکون حاصل ہوگا اور ہم پاگلوں کی طرح دنیا کے پیچھے مگن نہیں ہونگے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اُس خالق کے حقیقی بندے بنیں جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اوراُس کے بنائے ہوئے نظام پر عمل پیرا ہوکر بگاڑ پیدا کرنے سے گریز کریں۔پھر نہ ہی سزا کے طور اس طرح کے وباء ہونگے اور نہ ہی نظر نہ آنے والے جراثیم مو ت کی طرح ہمارا پیچھا کریں گے۔یہ سنبھلنے اور احتساب کرنے کا وقت ہے ۔خود احتسابی اصلاح احوال کی طرف لے جاتی ہے اور اصلاح احوال کامیابی کی طرف ۔امید کی جاسکتی ہے ہم اپنے آپ میں بدلائو کا سفر شروع کرینگے اور ایک ایسی را ہ پر گامزن ہوجائیں گے جس کی منزل دائمی سکون اور ابدی کامیابی ہوگی۔