باپ
باپ وہ عظیم ہستی ہے
جو خود روتا ہے پر ہمیں ہنساتا ہے
بھوکا رہتا ہے پر ہمیں کھلاتا ہے
خود جاگتا ہے پر ہمیں سُلاتا ہے
خود دھوپ میں جلتا ہے پر ہمیں چھاؤں میں رکھتا ہے
خود کانٹوں میں سوتا ہے پر ہمیں پھولوں پر سُلاتا ہے
ہو کِتنا بھی کمزور پر ہمارے لئے ساری دنیا سے لڑجاتا ہے
خود کے لئے نمازوں میں دعا کرے یا نہ کرے پر ہمارے لئے ضرور کرتا ہے
اپنی خواہشات پوری کرے یا نہ کرے پر ہماری ضرور پوری کرتا ہے
خود آگے چل پائے یا نہ چل پائے پر ہمیں اُنگلی پکڑ کر چلنا ضرور سکھاتا ہے
خود روٹھتا ہے پھر خُود ہی مان جاتا ہے پر اگر ہم روٹھ جائیں تو پوری دنیا کو منا لیتا ہے
یا اللہ ہم سب کے والدین کو سلامت رکھ اور جن کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں
ان کی مغفرت فرما۔ آمین
ماہرہ مشتاق چک
پولیس ہائوسنگ کالونی قمرواری سرینگر
تم یاد
سراپا یاد ہی ہو
کیا یاد ہے تم کو اے جاناں
شاداب سہانے وہ لمحے
جب اپنی قسمت کی دیوی
دونوں پہ مہرباں ہوتی تھی
بے لوث ہمارے ہی در پہ
خود پوجا کرنے آتی تھی
اخلاص، محبت اور الفت
دونوں پہ روا وہ رکھتی تھی
دونوں میں سانسیں لیتی تھی
دونوں کو زندہ رکھتی تھی
دونوں کی حکایت جیسے تو
اک دُوجے کے سنگ چلتی تھی
لیکن قسمت کی دیوی نے جانے کیونکر تیور بدلے
اخلاص، وفا اور الفت سے بے گھر ہو کے سب در بدلے
’’ پرماتما جیسی دیوی ماں‘‘ اِس روپ کے بال وپر بدلے
وہ جانِ محبت،اُلفت، چاہت واللہ سب یکسر بدلے
اب خود ہی متائے جاں کہہ دو
اس حال میں جینا کیسا ہے۔
حالات پہ میں الزم دھروں
یا تجھ کو دغا کے طعنے دوں
چاپ چاپ رہوں کہ شور کروں
یا روؤں پھر ماتھا پیٹوں
میں جانتا ہوں تم دور ہوئے
تقدیر کے ہاتھوں چور ہوئے
سب جیت کے آخر ہار گئے
ورنہ تو جاں بھی وار گئے۔
لیکن کیا تم نے سوچا بھی
ناکامی بیج جو بوتی ہے
کوئی ہار تو جیت بھی ہوتی ہے
پھر عشق کا جاناں کیا کہنا
یہ ہار و جیت سے ماورا ہے
سیراب، سنہرا، سانورا ہے
اس عشق کے عہد و پیماں میں
تم خود کو تول بھی سکتے تھے
دو چار حریفوں میں جاناں
یہ زہر تو گھول بھی سکتے تھے
میری چھوڑو بس رہنے دو
اپنی تو بول بھی سکتے تھے۔
اب تم کو بچھڑے عرصہ ہوا
کیا آج بھی تم ویسے ہی ہو؟
ماضی کی دھندلی یادوں کے وہ سارے دریچے بند کئے؟
مطلب کہ وقت کے ہاتھوں سے سب جذبے بھی پابند کئے۔
چل ٹھیک کیا سب کچھ لیکن
اِک بات کہوں اخلاص بھری
"میں آج بھی بالکل ویسا ہوں"
معلوم ہی ہوگا کیسا ہوں
تم آج بھی میرے پہلو میں دکھ درد مٹانے آتے ہو
اس ہجر کی سونی بستی کو بے تیغ ہی ڈھانے آتے ہو
پھر دشتِ جنوں کے ویراں میں تم پھول اُگانے آتے ہو
لیکن بے نیند سی آنکھوں کو تم نیند دُھلانے آجاؤ
بے حوش پڑا ہوں مدت سے تم حوش میں لانے آجاؤ۔
اس یاد کے اُجڑے صحرا کو آباد تو کرنے آجا ؤ
بے حال ہوں اپنی حالت سے تم حال بتانے آجاؤ ۔
اب میرا گھر بھی شاد نہیں
یعنی کچھ بھی تو آباد نہیں
میں جانتا ہوں یہ مانتا ہوں
’’ تم لوٹ نہیں آؤ گے اب‘‘
تم یاد سراپا یاد ہی ہو
تم یاد سراپا یاد ہی ہو
عقیل فاروق
بنہ بازار شوپیاں
موبائل نمبر؛ 7006542670
آئینۂ لم یزل
جو بچھڑ گیا اسے یاد کر جو خلق ہوا اُسے جان لے
یہی میرے رب کی دلیل ہے یہاں جینا مرنا ہے مان لے
کبھی سوزشِ دروں ہے تو اور کبھی ہے نہفتہ خیال تو
وہی طربِ ساز بہار ہے وہی دل گدازِ فضال تو
یہ جہان تاب و تواں ہے کیا؟ نہ زمیں کہیں نہ جہاں نما!
ہے وجود بخشا زوال کا کوئی کیا کرے گا ہما شما
وہی خالقِ دو جہان ہے وہ سراپا صدقِ خلیل ہے
وہ بڑا ہی کرم شعار ہے وہی مشکلوں میں خلیل ہے
تری حدِ نگاہ نظر نہیں ترا آئینہ لا مثال ہے
تو ہی لامکاں سے بھی آگے ہے جو وجود تیرا فعال ہے
تری رحمتوں پہ نثار ہوں مری زندگی کے یہ پیچ و خم
کہ وجود میرا تو ہیچ ہے یہ جہاں یہ خوشیاں ہیں سب الم
ہمیں مشکلوں سے نکالتا یہی رب ہمارا ہے لم یزل
وہ حلیم ہے وہ کریم ہے یہی راز بستہ ہے میرا کُل
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٗٹ ہندوارہ،موبائل نمبر؛6005929160