ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک:خدمت گزاری اور اطاعت و فرمانبرداری اولاد کی اولین ذمہ داری ہے انسان اپنے ماں باپ کی چاہے کتنی ہی خدمت کر لے مگر وہ ان کا بدلہ اتار ہی نہیں سکتا ہے۔سعادت مندی کی بات یہ ہےکہ اولاد والدین کی خدمت کرتی رہے اور اسے اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھےاور اللہ کا شکر ادا کرتا رہے ۔
کیونکہ اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں سے کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے۔ غرض رشتے بنا کر اللہ نے انکے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں۔ ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن والدین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فورا بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔(ترجمہ) ’’اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہرگز مت کرنا ۔اس کے بعد فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں بلکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انہیں کی برکت سے ہوں۔ والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کا تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں ۔ماں کا مجاہدہ سب سے زیادہ محنت و مشقت برداشت کرتی ہے۔سورۃ احقاف میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا۔‘‘ حمل کے نو ماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف یہ سب ماں برداشت کرتی ہے، جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو آپ کی پرورش کے لئے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، چاہے سردی ہو یا گرمی، صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسب معاش کی صعوبتوں کو برداشت کرتا ہے اور ان کے لئے کماتا ہے۔ان کے اوپر خرچ کرتا ہے۔ ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کی صحت کا خیال رکھتی ہے، سردی گرمی کا خیال رکھتی ہے، کبھی اگر اولاد بیمار پڑتا ہے تو ماں کی نیند اڑ جاتی ہے۔رات کو اُٹھ کر اس کا خیال رکھتی ہے، ماں اولاد کو سلاتی ہے مگر خود نہیں سوتی ہے۔ غرض والدین اپنی راحت کو چھوڑ کر بچوں کے خاطر قربان کرتے ہیں۔
ہمارا دین ہمیں ایک طرف ہمارے خالق سے جوڑتا ہے ،دوسری طرف ہمیں بندوں کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔کوئی شخص صحیح معنوں میں دیندار نہیں ہو سکتا تب تک جب تک وہ اللہ تعالی کے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق ادا نہ کرے۔ اپنے حقوق کے بارے میں اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں کہ وہ جس کو چاہے معاف کر دے لیکن بندوں کے حقوق جب تک بندہ معاف نہ کریں گے اس وقت تک معاف نہیں ہو سکے گا۔حقوق العباد کا معاملہ بہت اہم معاملہ ہے۔ حقوق العباد کا مطلب کیا ہے؟ بندوں کے حق دینا اور بندوں میں سب تو پہلا اور بڑا حق والدین کا ہے۔ قرآن میں الله کا ارشاد ہے:’’میرے شکر گزار رہو اور اپنے والدین کے‘‘۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں والدین کے شکرگزاری کے جذبات رکھنے چاہیے، جیسے کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے۔میرے شکر گزار رہو اور اپنے والدین کےاور شکر گزاری کا مطلب کیا ہے کہ انسان والدین کے لیے دل میں محبت کے جذبات رکھیں، قدردانی کے جذبات رکھیں، ان کے احسانات پر زبان سے بھی شکر ادا کرے اور پھر ان کی اطاعت کرے، والدین کو خوش رکھنا یہ بھی ایک احسان کی ایک شکل ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو روتا ہوا چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہجرت پر بیت کرنے کے لیے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو واپس لوٹایا اور فرمایا: جاؤ اور جا کر اُن کو خوش کرو، جس پر تم اُن کو رلا کر آئے تھے، گویا والدین کو خوش رکھنا اولاد کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے۔
جو شخص اپنی ماں باپ کی عزت کرتا ہے اور ان کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے تو اللہ تعالی ان کی عمر میں برکت عطا کرتا ہے اور اس کو ایسی اولاد عطا کرتا ہے جو اس کی عزت کرتا ہے ۔والدین کے ساتھ حسن سلوک ان کی نیکیوں میں سے ہے جس کی جزا انسان کو دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ اور فرمایا: جو ماں باپ کو ستاتا ہے ،میں اس کی عمر کم کر دیتا ہوں اور اس کو پھر ایسی اولاد دیتا ہوں جو اس کو ستائے۔ پھراسی طرح والدین کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہیے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نیک اولاد اپنے ماں باپ پر محبت بھری نظر ڈالتا ہے، اللہ اس کو اس نظر کے بدلےایک حج مقبول کا ثواب عطا کرتے ہیں۔ آپ دیکھئے کہ حج کرنا کتنا مشقت والا کام ہے لیکن جو شخص ماں باپ کو پیار سے دیکھتا ہے، اس کے لیے اتنا بڑا اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی شخص دن میں سو بار ایسا کرتا رہے یعنی سو بار محبت سے دیکھے۔ آپؐ نے فرمایا: جی ہاں! اگر کوئی سو بار بھی دیکھیں تب بھی اللہ بالکل پاک ہے یعنی اس کے پاس بے حساب اجر و ثواب ہے، تمہارے تصور سے بہت بڑا ہے، تنگ دلی سے پاک ہے۔پھر اسی طرح محبت کے ساتھ دیکھنے اور پیش آنے کے ساتھ ساتھ گفتگو میں بھی محبت ادب و احترام اور نرمی ہونی چاہیے۔
اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے بڑھاپے کو ذکر فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر بات کرنااور اگر ان کی کوئی بات آپ کو ناگوار گزرے تو ان کو جواب میں’ ہوں‘ بھی مت کہنا۔اللہ تعالی نے بڑھاپے کی حالت کو خاص طور سے اس لئے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو نہ’ ہوں‘ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی۔جوانی میں بدتمیزی کا اندیشہ کم ہوتا ہے۔ البتہ بڑھاپے میں والدین جب کمزور ہو جاتے ہیں اور وہ بچوں کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے پھر بڑھاپے میں عام طور سے کمزوری کی وجہ سے مزاج میں تبدیلی آتی ہے ۔بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کرتے ہیں تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں یا ناک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں۔اس موقع کے لئے اللہ نے حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر بات کرنا تو دور کی بات ہے، ان کو اُف بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہار بھی مت کرنا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اگر والدین کی بے ادبی میں اُف سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ اسے بھی حرام فرما دیتے۔
اللہ تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے وہیں پر اُن کے لئے دعا کرنے کی بھی تعلیم دی ہے۔اللہ تعالی کا ارشادہے۔
’’رب ارحمهما كما ربياني صغيرا‘‘ یعنی اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔ہر نماز کے بعد والدین کے لئے دعا کرنے کا معمول بنا لینا چاہیےکیوں کہ ہم اپنے ماں باپ کا حق زندگی پر چُکا نہیں سکتے، تو اسی لئے ہمیں اپنے ماں باپ کے لیے ہر نماز کے بعد دعا کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالی سے آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اللہ کا شکر گزار بنائے اور اپنے ماں باپ کا بھی شکر گزار بنائیں۔