دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر شروع ہوچکی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ لہر پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کورونا معاملات میں ایک بار پھر اضافہ کو دیکھتے ہوئے نئے سرے سے جزوی اور مکمل لاک ڈائون کا نفاذ عمل میں لایاجارہا ہے جس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ عالمی معیشت میں مزید تنزلی دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں میں مزید ٹھہرائو فطری ہے ۔ہمارے یہاں بھی صورتحال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے ۔یہاں بھی کورونا کی دوسری لہر ابھی بھی جاری ہے تاہم قدرے ٹھہرائو آچکا ہے اور کہیں کہیں تیسری لہر شروع بھی ہوچکی ہے ۔گوکہ پہلی لہر کی وجہ سے نڈھال معیشت کا پہیہ ابھی بھی پوری طرح بحال نہیں ہوچکا تھا اور اقتصادی سرگرمیاں بدستور متاثرتھیں تاہم دوسری لہرکی وجہ سے معیشت مزید کمزور ہو گئی ہے۔ موجودہ حالات آنے والے مشکل ترین ایام کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔کہنے کو تو لوگ بہت کچھ کہیں گے لیکن ملک کی شرح نمو میں یہ تشویشناک گراوٹ دراصل کورونا وائرس کی دین ہے اور اقتصادی ماہرین نے پہلے ہی اس کی پیشگوئی کی تھی ۔دراصل کورونا وائرس کے ابتدائی ایام میں گزشتہ سال 25مارچ سے ملک میں68روزہ طویل کورونا لاک ڈائون بھی چلا جس کی وجہ سے معمولات زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئے تھے اور جب زندگی کے تمام شعبے مفلوج ہوجائیں تو معیشت کا گرجانا فطری عمل ہے جو تاحال مکمل طور ابھر نہیں پائی ہے اور اب کووڈ انیس کی دوسری لہر گوکہ مدہم پڑ رہی ہے تاہم تیسری لہر کا امکان مسلسل موجودہے۔ماہرین اقتصادیات روز اول سے کہہ رہے تھے کہ کورونا عالمی معیشت کو لے ڈوبے گا اور فی الوقت ویسی ہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے کیونکہ پوری دنیا کا معاشی نظام لرزہ براندام ہوچکا ہے ۔ہمارا ملک چونکہ ابھی ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں ہی شامل ہے تو یہاں اس کے اثرات زیادہ نمایاں ہونا طے تھا اور وہی کچھ ہوا بھی لیکن اس کے باوجود سرکار نے اپنی طرف سے عوام کو راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔سرکاری سیکٹر میں کھپت میں اضافہ کا رجحان اس عرصہ کے دوران جو دیکھنے کو مل رہا ہے ،وہ دراصل اس مدت کے دوران سرکار کی جانب سے معمول سے زیادہ صرفہ کی وجہ سے ہوا ہے ۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس مدت میں سرکار کو نہ صرف طبی نظام کو اَپ گریڈ کرنے پر زر کثیر صرف کرناپڑا بلکہ عوامی راحت رسانی کے کاموں پر بھی کھربوں روپے خرچ کئے گئے جن میں مفت چاول اور گیس کی تقسیم بھی شامل ہے ۔اس کے علاوہ معیشت کو سہارا دینے کیلئے اس محاذ پر جو سرکاری اقدامات کئے گئے ،اُن سے بھی خزانہ عامرہ پر بوجھ پڑ گیا اورجو سرکاری کھپت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ،وہ ایسے ہی فلاحی اقدامات کا مرہون منت ہے ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عالمی معیشت کا یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا ۔ظاہر ہے کہ اس وقت جو صورتحال ابھر کر سامنے آرہی ہے،وہ کوئی اطمینان بخش صورتحال قرار نہیں دی جاسکتی ہے اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہونا طے تو مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔اس کا جو فوری اثر ہوگا ،وہ ٹیکس کھاتوں پر ہوگا کیونکہ ٹیکس وصولی بری طرح متاثر ہوگی اور اس کا خمیازہ دونوں مرکز اور ریاستوں کو بھی بھگتناپڑے گا۔جب آمدن ہی نہ ہوئی ہو تو ٹیکس جمع کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ہے اور جب ٹیکس جمع نہ ہونگے تو سرکاری خزانہ کی حالت مزید پتلی ہوسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمیں مزید کچھ اچھی خبریں سننے کو نہیں مل سکتی ہیں۔یہ ساری صورتحال بیان کرنے کامقصد دراصل عوام کو اس تلخ حقیقت سے روبرو کرا نا ہے کہ کورونا نے سارے معاشی نظام کو تلپٹ کرکے رکھدیا ہے اور یہ وقت ہے کہ ہم امید کادامن نہ چھوڑیں اور ذمہ دار شہریوں کی برتا ئو کرتے ہوئے اس وبائی بحران سے خلاصی پانے میں حکومت کی مدد کریں ۔صد فیصد ٹیکہ کاری میں ابھی بہت وقت لگے گا ۔فی الوقت احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد ہی ہمیں اس آفت سے بچاسکتا ہے اور یہ احتیاطی تدابیر اس قدر آسان ہیں کہ ان پر اتنا خرچہ بھی نہیںہے اور آسانی سے عمل بھی کیاجاسکتا ہے۔وقت آچکا ہے جب ہمیں ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہئے کیونکہ اگریہاں کورونا کی تیسری لہر آتی ہے تومزید تباہی سے ہمیں کوئی بچا نہیں سکتا ہے اور وہ تباہی دونوں صورتوں میں ہوگی ۔ہمیں بھاری جانی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑے گا اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔اب گیند عوام کے پالے میں ہے اور عوام کو ہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیںتاہم امید یہی کی جاسکتی ہے کہ عوام شر پر خیر کو ترجیح دینگے جس سے حکومت کا کام بھی آسان ہوسکتا ہے اور کوروناوبا سے نڈھا معیشت کو بھی واپس پٹری پر لانے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔