جموں یو نیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر منوج کمار دھر نے جہاں امتحانی نظام استوار کر نے اور نتائج بر وقت اور معیاد بند طریقے سے ظاہر کر نے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ طلبہ کا آئندہ تعلیمی سال کسی بھی طرح متاثر نہ ہو ، وہیں انہوں نے ایسے کورس متعارف کر نے کی بات بھی کہی جن کی جاب مارکیٹ میں پذیرائی ہو اور طلبہ کو تعلیم مکمل کر نے کے بعد روزگار کے مواقع حاصل ہو پائیں ۔گوکہ وائس چانسلر کی تمام ترجیحات پر مدلل بحث کی جاسکتی ہے تاہم فی الوقت ان سطور میں ان کی توجہ ایسے چند کورسز کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی جائے گی جن کی اہمیت نہ صرف مسلمہ ہے بلکہ جموں یونیورسٹی حکام نے بہت پہلے ان کورسز کو شروع کرنے کی منظوری دی تھی تاہم نا معلوم وجوہات کی وجہ سے انہیں طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا ۔ لوگوں اور طلبہ کے زبردست مطالبہ کے بعد جموں یونیورسٹی میں فارسی مضمون متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس کے لئے 2007 میں یونیورسٹی کونسل نے باضابطہ منطوری دے دی تھی ۔ اسی طرح گوجری اور پہاڑی زبان کے شعبے قائم کر نے کی منظوری یونیورسٹی کونسل نے 2008میں دی لیکن اس کے بعد اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو پائی اور کئی سال گزر جانے کے بعد بھی معاملہ جوں کا توں لٹکا ہوا ہے ۔یہی صورتحال عربی شعبہ کی بھی ہے جس کے لئے مختلف حلقے اور تنظیمیں وقتاًفو قتاً مطالبہ کر تی رہتی ہیں لیکن کسی نے اس پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت جموں خطہ کے سکولوں اور کالجوں میں فارسی اور عربی زبان بطورِ کلا سیکی زبان پڑھائی جارہی ہیں ۔ کشتواڑ، دوڈہ ، رام بن ، پونچھ ، راجوری اضلاع کے کالجوں کے علاوہ اودہم پور ، ریاسی اور کٹھوعہ کے چند کالجوں میںیہ دونوں زبانیں مضمون کے طور پڑھائی جا رہی ہیں لیکن جموں یونیورسٹی میں نہ تو فارسی کا شعبہ ہے اور نہ ہی عربی کا، جس کی وجہ سے طلبہ کو گریجویشن کے بعد ان زبانوں میں پوسٹ گریجویشن کر نے میں کافی دقتوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ ہر سال ان کالجوں سے درجنوں طلبہ عربی اور فارسی مضامین کے ساتھ فضیلت کی ڈگری حاصل کر تے ہیں اور اس کے بعد انہیں پوسٹ گریجویشن کر نے کے لئے کشمیر یو نیورسٹی اور با با غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کا رخ کر نا پڑتا ہے ، لیکن چونکہ ان یو نیورسٹیوں میں ان مضامین کی محدود سیٹیں ہیں، جس کے نتیجہ میں مالی استطاعت رکھنے والے طلبہ کو بحالت مجبوری بیرون ریاست یونیورسٹیوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جبکہ متوسط اور غریب طبقہ کے طلبہ حالات سے سمجھوتہ کرکے کوئی دوسرا مضمون چننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
جموں یونیورسٹی 1969میں ایک ایکٹ کے ذریعے جموں و کشمیر یو نی ورسٹی کو 2الگ یونیورسٹیوں میں منقسم کر کے قائم کی گئی تھی اور جب سے لے کر آج تک ان مضامین کو شروع کرنے کے مطا لبات اور بر سر اقتدار لوگوں کی طرف سے یقین دہانیوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن خطہ کی غالب آبادی کی اس آواز پر کبھی بھی کوئی سنجیدہ دھیان دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی ۔ اس وقت اس یو نیورسٹی میں ایک اہم کلا سیکی زبان سنسکرت کا شعبہ بخوبی کام کر رہا ہے اور بلا شبہ یہ زبان اس کی مستحق ہے لیکن یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ مہاراجا ئوں کے دورِ حکومت میں1889 تک فارسی ریاست کی سرکاری زبان رہی ہے اور اس کے بعد بھی 1947تک اردو کے سرکاری زبان ہو نے کے باوجود فارسی کو اہم مقام حاصل رہا ۔ اس لئے اس زبان کو اس کا جائز حق دینا کو ئی نئی بات نہیں ہو گی اور نہ ہی اس شعبہ کے قیام سے کسی کا کوئی نقصان ہے ۔
اسی طرح عربی میں بھی نو جوانوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں اس کے لئے سہولیات دستیاب نہیں ہیں ۔ حالانکہ ان دونوں زبانوں کی بین االاقوامی حیثیت مسلمہ ہے اور جاب مارکیٹ میں بھی انکی اہمیت دوسری کئی غیر ملکی زبانوں سے کسی طرح کم نہیںکہی جا سکتی ۔اس کے علاوہ فارسی اور عربی کو بھی شرقی کلاسیکی زبانوں کا درجہ حاصل ہے ۔ علاوہ ازیں گوجری اور پہاڑی بھی جموںوکشمیر خصوصی طور پر جموں خطہ کی کافی بڑی آبادی کی مادری زبانیں ہیں ۔ ڈوگری اور کشمیری کے ساتھ ساتھ ان کو بھی پھلنے پھولنے اور ترقی کر نے کا برابر حق ہے ۔ چونکہ موجودہ وائس چانسلر کا تعلق چونکہ جموںوکشمیرسے ہی ہے اور ان کی بیشتر تعلیم بھی یہیں پر ہو ئی ہے ، اس لئے وہ یہاں کے لوگوں کے جذبات اور ضروریات سے بھی کافی حد تک واقف ہیں ۔ان حالات میں نئے وائس چانسلر وعدے دفا کرنا چاہیں تو وہ خطہ کی غالب آبادی کے مطالبات کو پورا کرکے ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پروفیسر دھر مصلحت پسندی سے کام لئے بغیر روایت کے برعکس اپنے اُس عزم ، جس میں انہوں نے جموں یونی ورسٹی کو ایک نئی پہچان دینے کی بات کی ہے ، کا لحاظ کر تے ہوئے ان شعبوں کے قیام کے لئے عملی اقدامات کرینگے جس سے یقینی طور پر نہ صر ف اس عظیم دانش گاہ کا وقار دوبالا ہوگا بلکہ شعبہ لسانیات میں تحقیق کے نئے دریچے کھل جائیں گے۔