نئی دہلی//جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے جموں خطے کیلئے 6 اضافی اسمبلی نشستیں اور ایک کشمیر کیلئے تجویز کی ہے جب کہ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کیلئے 16 حلقے مخصوص کئے ہیں۔کشمیر ڈویژن میں اس وقت 46 اور جموں میں 37 نشستیں ہیں۔سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا ڈیسائی کی سربراہی میں کمیشن نے پیر کو یہاں اپنی دوسری میٹنگ کی۔ اس میں جموں و کشمیر کے پانچ لوک سبھا ممبران بطور ایسوسی ایٹ ممبر اور چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا بطور آفیشیو ممبر ہیں۔نیشنل کانفرنس کے تین لوک سبھا ممبران بشمول پارٹی صدر اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پہلی بار کمیشن کی میٹنگ میں شرکت کی۔ پی ایم او میں وزیر مملکت جتیندر سنگھ سمیت بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ میٹنگ کے دوران نشستوں کو بڑھانے کے مسودہ کو پیش کیا گیا اور پارٹیوں سے کہا گیا کہ وہ 31 دسمبر تک نشستوں کے مجوزہ اضافے پر اپنی رائے پیش کریں۔ ڈاکٹرعبداللہ، جو کہ پانچ پارٹیوں کے پیپلز الائنس (PAGD) کے چیئرمین بھی ہیں، نے میٹنگ کے بعد کہا کہ وہ گروپنگ کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کے ساتھیوں کو کمیشن کی بحث کے بارے میں آگاہ کریں گے۔عبداللہ نے کہا، "ہم پہلی بار میٹنگ میں شریک ہوئے کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز سنی جائے۔ میٹنگ خوش اسلوبی سے ہوئی اور ہم سب کو نتیجہ پر پہنچنے کے لیے اپنایا گیا طریقہ بتایا گیا‘‘۔انہوں نے کہا’’میں کمیشن کو اپنے خیالات بھیجنے سے پہلے اپنے سینئر پارٹی لیڈروں سے بات کروں گا، ہمیں ان سیٹوں کے بارے میں بھی نہیں بتایا گیا ہے جو وہ شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کیلئے ریزرو کر رہے ہیں‘‘۔ کمیشن نے جموں و کشمیر میں شیڈول ٹرائب کیلئے 9 اور شیڈول کاسٹ کیلئے 7 سیٹیں تجویز کی ہیں۔اگست 2019 میں پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر تنظیم نو بل کی منظوری کے بعد حد بندی کمیشن فروری 2020 میں قائم کیا گیا تھا۔ابتدائی طور پر اسے ایک سال کے اندر کام مکمل کرنے کو کہا گیا تھا لیکن اس سال مارچ میں اسے ایک سال کی توسیع دینا پڑی کیونکہ COVID-19 وبائی امراض کی وجہ سے کام مکمل نہیں ہو سکا۔کمیشن کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام سونپا گیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 جون کو جموں و کشمیر کے لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران کہا تھا کہ جاری حد بندی کی مشق کو تیزی سے ہونا چاہیے تاکہ ایک منتخب حکومت کو قائم کرنے کے لیے انتخابات کرائے جا سکیں جو اس کی ترقی کی رفتار کو تقویت بخشے۔جموں و کشمیر کے 14 سیاسی رہنماں کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات کے بعد ٹویٹس کی ایک سیریز میں، وزیر اعظم نے کہا، "ہماری ترجیح جموں و کشمیر میں نچلی سطح پر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔ حد بندی تیز رفتاری سے ہونی چاہیے تاکہ انتخابات ہو سکیں اور جے کے کو ایک منتخب حکومت ملے جو جے کے کی ترقی کی رفتار کو تقویت بخشے۔"اس سال 23 جون کو کمیشن نے ایک میٹنگ کی تھی جس میں جموں و کشمیر کے تمام 20 ڈپٹی کمشنروں نے شرکت کی تھی جہاں اسمبلی سیٹوں کو جغرافیائی طور پر مزید کمپیکٹ بنانے کے بارے میں معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔اسمبلی کی چوبیس نشستیں بدستور خالی ہیں کیونکہ وہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے تحت آتی ہیں۔
نشستوں کا فرق ختم ہونے کے قریب
نیوز ڈیسک
سرینگر //کشمیر اور جموں میں اسمبلی نشستوں کا فرق کم ہوتا جارہا ہے۔1996میں دونوں صوبوں کے درمیان 10نشستوں کا فرق تھا۔اُس وقت کشمیر میں 42اور جموں میں 32 نشستیں تھیں۔2021تک فرق 9نشستوںرہا ہے۔ کشمیر میں46 اورجموں میں37 اسمبلی حلقے ہیں۔اب صرف 4نشستوں کا فرق رہ گیا ہے۔ نئی حد بندی کے مطابق کشمیر میں 47اور جموں میں 43 نشستیں ہونگی۔ غالب امکان ہے کہ آئندہ حد بندی کمیشن اس فرق کو بھی ختم کر کے کشمیر میں 48اور جموں کو 52 نشستوں پر لے آئے۔
آخری حد بندی 1995میں کی گئی
بلال فرقانی
سرینگر // جموں کشمیر میں پہلی حد بندی 1963میں کی گئی۔ اسکے بعد1973 میں دوسری بار اسمبلی حلقوں کا تعین کیا گیا اور تیسری بار1995 میںآخری حد بندی ریٹائرڈ جسٹس کے کے گپتا کی سربراہی میں عمل میں لائی گئی۔1981کی مردم شماری کے مطابق 1995میں حد بندی کی گئی تھی اور اسی بنا پر 1996کے اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔1991میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی تھی۔اس لئے2001کی مردم شماری کے بعد کوئی حد بندی کمیشن نہیں بنایا گیا ۔ البتہ ریاستی اسمبلی نے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت حد بندی کے عمل کو 2026تک ملتوی کیا گیا۔ اس قانون کیخلاف سپریم کورٹ میں عرضی بھی دائر کی گئی تھی لیکن عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ لیکن 2019میں ریاست کے تنظیم نو ایکٹ کے بعد 6مارچ 2020کو مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی میں موجودہ کمیشن کی تشکیل کی۔تنظیم نو ایکٹ کے مطابق جموں کشمیر میں اسمبلی نشستوں کی تعداد موجودہ 107سے بڑھا کر 114کرنی ہے۔یاد رہے کہ 24نشستیں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کیلئے مخصوص رکھی جاتی ہیں۔
تمام ایسوسی ایٹ ممبران نے کمیشن کے کام کو سراہا:جتندرسنگھ
نئی دہلی//حد بندی کمیشن کی میٹنگ کے بعد، مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس (این سی) کے قائدین کمیشن کے پیرامیٹرز سے مطمئن ہیں۔ نئی دہلی میں ہوٹل اشوکاکے باہرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے جتیندر سنگھ نے کہاکہ تمام ایسوسی ایٹ ممبران نے کمیشن کے کام کاج میں تعاون کرنے کا عہد کیا۔انہوںنے کہاکہ حدبندی کمیشن نے بہت اچھا کام کیا ہے،ہمیں اس کی تعریف کرنی چاہئے کہ انہوں نے کچھ طے شدہ پیرامیٹرز کی پیروی کی ہے جس کی بنیاد پر وہ دستاویزات کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ جتیندر سنگھ نے کہا کہ تمام متعلقہ ممبران نے پارٹیوں سے قطع نظر حد بندی کمیشن کے کام کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ ایسوسی ایٹ ممبران نے اپنی پارٹی اور سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر، حد بندی کمیشن کی طرف سے کئے گئے کام کو سراہا۔
سیٹیوں کی تقسیم برابری کی بنیاد پرہو:آزاد
ڈوڈہ/اشتیاق ملک/ کانگریس کے سینئرلیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ دونوں خطوں میں برابری کی بنیاد پر سیٹوں کی تقسیم ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ چھ سیٹیں خط چناب، اُدھم پور اور کٹھوعہ کو ملنی چاہئے ۔موصوف نے ڈوڈہ میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہا کہ حد بندی کرنے کا فیصلہ آبادی اور ایریا کو دھیان میں رکھتے ہوئے لیا جاتا ہے ۔غلام نبی آزاد کے مطابق جموں صوبے میں آبادی اور ایریا کے حساب سے خط چناب پہلے نمبر پر اُس کے بعد کٹھوعہ اور اُدھم پور آتے ہیں اور ان ہی تین علاقوں کو چھ سیٹیں ملنی چاہئے ۔اُنہوں نے کہاکہ مجھے اُمید ہے کہ چھ سیٹوں کو ان تین علاقوں میں ہی تقسیم کیا جائے گا۔سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق کانگریس برابری کی بنیاد پر سبھی اضلاع کو انصاف فراہم کرنے کی بات کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک ایس ٹی کا تعلق ہے تو جموں اور کشمیر دونوں خطوں میں ایس ٹی کی آبادی لگ بھگ ایک جیسی ہے لہٰذا اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ہی برابری کی بنیاد پر سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ لیاجانا چاہئے ۔
سب کو مساوی انصاف ملا :رینہ
جموں/یو این آئی/ بھارتیہ جنتاپارٹی کے جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے حد بندی کمیشن کی جانب سے ایسو سی ایٹ ممبران کو پیش کئے گئے معروضی دستاویز کا خیر مقدم کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کمیشن نے جموں کشمیر کے سبھی علاقوں کے لوگوں کے جذبات و احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے رپورٹ ترتیب دی ہے۔موصوف صدر نے بتایا کہ کمیشن نے سب کو برابری کی بنیاد پر انصا ف فراہم کیا ہے ۔ جموں میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ سے علاقائی توازن کو بھی برقرار رکھا گیا ہے ۔روندر رینہ نے بتایا کہ پچھلے ستر برسوں سے جموں کے لوگ اپنے حقوق کی خاطر آواز بلند کررہے تھے اور آج اُنہیں اس کا پھل مل گیا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اس بار حد بندی کمیشن نے سبھی علاقوں کے لوگوں کا خیال رکھا ہے ۔
سفارشات نا قابل قبول:عمر عبداللہ
سرینگر/یو این آئی/ نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی سفارشات کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پر بی جے پی کا سیاسی ایجنڈا غالب رہا ہے۔ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا’’جموں وکشمیر حد بندی کمیشن کی ڈرافٹ سفارشات نا قابل قبول ہیں، نئی سیٹوں کی تقسیم کاری میں جموں کو چھ اور کشمیر کے لئے صرف ایک سیٹ سال2011 کی مردم شماری کے مطابق جائز نہیں ہے ‘۔عمر عبداللہ نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا’یہ انتہائی مایوس کن بات ہے کہ کمیشن نے اعداد و شمار کے بجائے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کو غالب رہنے کی اجازت دی ہے ‘۔ان کا ٹویٹ میں مزید کہنا تھا’وعدہ کئے گئے سائنسی اپروچ کے برعکس سیاسی اپروچ سے کام لیا گیا ہے‘ ۔
خدشات درست ثابت :محبوبہ مفتی
سرینگر/یو این آئی/ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ حد بندی کمیشن کا قیام جموں و کشمیر کے لوگوں کو مذہبی و علاقائی خطوط پر منقسم کرکے بی جے پی کے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے عمل میں لایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کا اصلی گیم پلان جموں و کشمیر میں ایک ایسی حکومت قائم کرنا ہے جو اگست 2019 کے غیر قانونی و غیر آئینی فیصلوں کو جائز قرار دے گی۔محبوبہ مفتی نے اپنے دوسرے ٹویٹ میں کہا’حد بندی کمیشن کے متعلق میرے خدشات غلط نہیں تھے ‘۔ان کا ٹویٹ میں مزید کہنا تھا’مردم شماری کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک خطے کیلئے چھ سیٹیں اور کشمیر کیلئے صرف ایک سیٹ تجویز کرکے وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا چاہتے ہیں‘۔
مردم شماری سے مطابقت نہیں : بخاری
سرینگر/یو این آئی/ جموں وکشمیر اپنی پارٹی صدر سید الطاف بخاری نے کہا ہے کہ مجوزہ حد بندی کمیشن رپورٹ2011 کی مردم شماری سے مطابقت نہیں رکھتالہٰذا جموں وکشمیر کے عوام کو یہ ناقابل قبول ہے ۔حد بندی کمیشن کی تجویز سے متعلق میڈیا رپورٹس کے حوالے سے پارٹی صدر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے میرٹ اور عوامی مطالبات کو درکنار رکھ کر رپورٹ تیار کی ہے اور یہ لوگوں کے خدشات کی تصدیق کرتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ حالیہ تجویز ملک کے اندر حد بندی کے لئے بنائے گئے قوانین کے جورہنما خطوط اور عمل ہیں، کے کلی طور خلاف ہے ۔اُن کے مطابق ضلع کا رقبہ اور متعلقہ آبادی کے اعدادوشمار 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہونے چاہئے تھے جوکہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر رپورٹ سے غائب ہیں۔نہ صرف آبادی زمرہ کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کمیشن نے موجودہ انتظامی اکائیوں کی نمائندگی کی ضروریات کو ختم کر دیا ہے ۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حد بندی کمیشن کی مجوزہ رپورٹ موجود صورت میں کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور اپنی پارٹی حکومت ِ ہند سے اپیل کرتی ہے کہ اِس معاملے کو سنجیدگی سے لیں ۔
تعصب کی عکاسی: سجاد لون
سرینگر/یو این آئی/ جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا’’حد بندی کمیشن کی سفارشات سراسر نا قابل قبول ہیں وہ تعصب کا شکار ہیں ،یہ جمہوریت میں یقین رکھنے والوں کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے ‘‘۔