شریعتِ مطہرہ نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنے نکاح کے سلسلے میں رائے قائم کرے اور سرپرست کو اس پر جبر اور زبردستی کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر عاقلہ بالغہ لڑکی کی اجازت کے بغیر نکاح کردیا جائے تو اس کا نکاح اس کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے یہ بہتر قرار دیا کہ وہ اپنے نکاح کے تمام معاملات ولی کے ذریعے یا ان کے مشورے سے انجام دے، کیوں کہ یہی مہذب گھرانوں کی لڑکیوں کی عادت اور دستور ہے۔ولی سے مشورے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ انسان دنیاوی کمالات یا اختیارات کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز ہوجانے یا عمر کے آخری حصے میں پہنچ جانے کے باوجود بھی مشورے کا محتاج رہتاہے، جہاں دیدہ، فہمیدہ، عمر رسیدہ حکم ران کو بھی مشورے کا پابند رکھا جاتا ہے، انفرادی رائے اور فیصلوں پر مبنی طرزِ حکومت کو پسند نہیں کیا جاتا، خواہ اس کے نتیجے میں ظاہری خوش حالی آجائے، مشورے کے نتیجے میں مختلف جہات اور راہیں سامنے آتی ہیں، اور فیصلہ مزید بہتر ہوتا ہے۔ خود رسولِ مقبولؐ جو بہترین مدبر اورحکیمِ انسانیت ہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آپ کو بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ: "اور ان سے خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے۔"(سورۂ آلِ عمران: 159) بلکہ مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی اہم امور تو طے ہی مشورے سے ہوتے ہیں، قرآنِ کریم کی ایک سورت کا نام ہی "شوریٰ" ہے، جس میں ارشاد ہے: ترجمہ: "اور ان کا ہر کام (جس میں بالیقین نص نہ ہو) آپس کے مشورے سے ہوتاہے۔"(شوریٰ: 38)
لہٰذا ایک لڑکی جو کم عمر ہونے کی بنا ء پر ناتجربہ کار ہے، لوگوں کی عادات اور خصلتوں سے ناواقف ہے، مردوں کی مکاری اور وعیاری کو نہیں جانتی اور گھر سے باہر کی دنیا کی خود غرضی اور بے رحمی سے اسے کبھی واسطہ نہیں پڑا ، وہ بھولی بھالی لڑکی تنہا اپنی قسمت کا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ جب کہ یہ فیصلہ صرف ذاتی اثرات کا حامل نہیں ہوتا، بلکہ پورا خاندان اور گرد و پیش کا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اُسے ایسے مخلص لوگوں کی رائے لینی چاہیے جو دنیا میں اس کے خیرخواہ ہوں، بےلوث اور بے غرض ہوں۔ اگر وہ ان کی تجویز کو درخورِ اعتناء نہ لاتے ہوئے از خود قدم اُٹھاتی ہے تو پھر بھی معاشرے کو اس فیصلے کی قدرکرنی چاہیے، اگرچہ اس کا فیصلہ مسلمہ اقدار کے خلاف ہو اوراسے اس تنہا پرواز کی بھاری قیمت چکانا پڑے؟سرپرست کی رائے کو اس لیے بھی اہمیت دینا چاہیے کہ لڑکی رشتوں کی لازوال زنجیر میں بندھی ہوئی ہے۔ شادی کے بعد بھی اسے خاندان کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی کامیاب ہو،اگر رشتہ خدانخواستہ ناکام ہوتا ہے تو خاندان کی صورت میں اس کے پاس پناہ گاہ موجود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو لڑکیا ں اپنا فیصلہ خود کرتی ہیں، وہ خاندان کی حمایت سے محروم ہونے کی وجہ سے پوری طرح شوہر کے رحم وکرم پر ہوتی ہیں اور اگر شوہر بھی اچھا نہ نکلے تو نتیجہ یا تو طلاق کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر اسے دائمی ازدواجی عذاب کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔