ہم نے جنگیں بہت سی دیکھی ہیں
جن میں ہر بار لوگ مرتے ہیں
شہر گائوں سبھی اُجڑتے ہیں
جب بھی بارُود یہ اُگلتی ہے
موت پھر زندگی نگلتی ہے
خون پانی کی طرح بہتا ہے
گدھ لاشوں کو نوچ کھاتے ہیں
سرحدوں سے بُری خبر سُن کر
ٹوٹ جاتی ہیں چوڑیاں ساری
کوئی بھی ایسی جنگ نہیں گزری
جس پہ انسانیت نہیں روئی
جنگ نفرت کا استعارہ ہے
جنگ آسائشیں نہیں دیتی
جنگ تو مسئلے بڑھاتی ہے
اس نے اُلفت کبھی نہیں بانٹی
اس نے بس سرحدیں بنائی ہیں
تیرے اجداد نے بھی دیکھی ہے
میرے اجداد نے بھی دیکھی ہے
آنے والی بھی نسلیں دیکھیں گی
ازل سے ابد تک یہ جاری ہے
تاج تختوں کی جنگ دیکھی ہے
ہم نے رشتوں کے سنگ دیکھی ہے
یہ زمینوں کی جنگ دیکھی ہے
اب خلاؤں کی جنگ دیکھیں گے
جنگ سے مفلسوں کو کیا مطلب
جنگ تو حکمران کرتے ہیں
بھوک کی جنگ کوئی نہیں لڑتا
مفلسی سے کوئی نہیں بھڑتا
سب زمینوں کی جنگ لڑتے ہیں
اب زمینوں کی جنگ نہیں ہوگی
اب تو بس ایک جنگ باقی ہے
جس پہ دارومدار ہے سب کا
زندگانی اسی میں ہے پنہاں
نظم میری یہ یاد رکھ لینا
جس میں، میں نے بیاں کہانی کی
ہونے والی ہے دوستو سُن لو
ساری دُنیا میں جنگ پانی کی
ساری دُنیا میں جنگ پانی کی
پرویز مانوس
نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142