شریک حیات کا حصول ہر انسان کی فطری خواہش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ النباء میں ارشاد فرمایا: " اور ہم نے تمہیں جوڑے جوڑے بنایا"۔ اسی طرح سورۃ الأعراف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ ذات جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے ان کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "پوری دُنیا نفع حاصل کرنے کی چیز ہے اور دُنیا کی چیزوں میں سے بہترین چیز جس سے نفع حاصل کیا جائے وہ ایک نیک اور صالح بیوی ہے"۔ نیک صالح بیوی شوہر کیلئے اللہ پاک کی بڑی عظیم نعمت ہے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ساری دُنیا زندگی کا سرمایہ ہے اور دُنیا کا قیمتی سرمایہ نیک صالح بیوی ہے‘‘۔ اسلام نے عورت کو بلند و اونچا مقام دیا ہے اگر یہ نیک بیوی ہے تو دُنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے، اگر یہ ماں ہے تو جنت اس کے قدموں تلے ہے، اگر یہ بیٹی ہے تو اپنے والدین کو جنت میں لے جانے کا ذریعہ ہے، اگر یہ دوست ہے تو معاشرے کیلئے ایک بہترین تحفہ ہے۔ لیکن یہ درجہ و مقام عورت کو تب حاصل ہوگا جب وہ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں بردار اور اطاعت گزار ہو۔
نکاح کے فوائد و برکت کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ انسان نیک بیوی کا انتخاب کرے۔ شریکِ حیات کا انتخاب قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق کرنا چاہئے۔ سب سے اہم بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رشتے کے انتخاب میں خواہ وہ لڑکے کا انتخاب ہو یا لڑکی کا دینداری کو ترجیح دینی چاہئے۔ گھر کو بنانے اور بگاڑنے میں شریک حیات بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔شریک حیات کا اگر صحیح انتخاب ہو جائے تو زندگی بڑے آرام سے گزرے گی اور اگر اس معاملہ میں غلطی ہوگئی تو یہی زندگی عذاب بن کر رہ جائے گی۔ اسلئے اس کے انتخاب میں خوب غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں نیک اور فرماں بردار بیویوں کے تعلق سے ارشاد فرمایا: ’’نیک بیویاں وہ ہیں جو فرماں بردار اور شوہروں کی عدم موجودگی میں بحفاظت الہی مال و آبرو کی نگہداشت کرتی ہیں‘‘۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’عورتوں سے چار باتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مال کے پیش نظر، اس کے حسب (خاندان) کے باعث، اس کے حسن کی خاطر اور دینداری کے باعث۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں (یہ جملہ کبھی تعجب اور کبھی تنبیہ وغیرہ کے لئے بولا جاتا ہے) تجھے تو دین دار عورت حاصل کرنی چاہئے‘‘(بخاری) ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری کو ترجیح دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اگر بیوی دیندار ہو تو وہ کائنات کی بہترین متاع ہے کیونکہ دین ہی کامیابی کا ستون ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: تم ان سے دین کی بنیاد پر نکاح کرو،کیونکہ ایک کالی کلوٹی کم عقل والی لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو وہ دوسری عورتوں سے افضل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ کون سی عورت بہتر ہے ؟ فرمایا وہ عورت جب خاوند کوئی حکم دے تو اس کی تکمیل کرے ، اس کو دیکھے تو خوش ہو جائے ، اپنے مال و جان میں اس کی مرضی کے خلاف نہ چلے کہ اسے ناپسند ہو۔
بیوی پر شوہر کے بہت سے حقوق ہیں اور سب سے پہلا حق یہ ہے کہ شوہر کی خدمت گزار اور اطاعت شعار ہو ، ہر جائز معاملے میں شوہر کی فرمانبرداری کرتی ہو ، یہی اس کے نیک ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نیک عورت کے بارے میں فرماتا ہے کہ نیک بیویاں اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں۔ حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر عورت جو اس حال میں فوت ہوکہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ خاوند کے راضی رہنے کا یہ مطلب ہے کہ عورت پر لازم ہے کہ اپنے خاوند کی ہر امر میں اطاعت اور فرمانبردار رہے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد گرامی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعد اگر کسی کو سجدہ کا حکم دیا جاتا تو وہ شوہر ہوتا۔شوہر کا حکم اس کے حق میں فرض ہے ، اس کے حکم کو ماننا اور اس کے حکم کے خلاف کوئی کام نہ کرنا، شوہر کی خدمت اور اطاعت کرنا بیوی پر لازمی اور ضروری ہے، اور شوہر کی خدمت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شوہر کے سارے جسم پر پھوڑے نکل آئیں اور ان میں پیپ اور خون رستا ہو ، تو یہ صاف کرے تب بھی حق ادا نہ ہوگا ۔ (نسائی ) ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا اس کے شوہر کا۔( مستدرک حاکم)۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی شادی اپنے سے عمر میں بڑی عظیم خاتون حضرت خدیجة الکبریٰ سے ان کی پارسائی اور سمجھداری کی وجہ سے کی تھی۔ حضرت خدیجة الکبریٰ نے زندگی کے نشیب و فراز میں ہر طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے بعد کفار مکہ کی طرف ظُلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا، آپ کے وجود اطہر پر سنگباری کی گئی، آپ کے پاک گلے میں چادر ڈال کر کھینچا گیا، آپ نے ان تمام تکالیف اور اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ جب آپ گھر تشریف لاتے تو حضرت خدیجة الکبریٰ آپ کے زخموں پر مرہم رکھتیں، آپ کی ڈھارس بندھاتیں اور اس انداز سے ایک نیک صالح شریکِ زندگی ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی کئی سال تک دوسرا نکاح نہیں کیا۔ ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا۔ گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرماتے۔آپؐ حضرت خدیجہؓ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’مجھے نبی کریمؐ کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ اس قدر غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی، حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں۔ ‘‘( بخاری)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے جتنی بھی شادیاں کیں، دین ، قابلیت اور اخلاق کی بنیاد پر کیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت چھوٹی تھیں لیکن دین، قابلیت اور اخلاق کی نعمتوں سے مالا مال تھیں۔ ان کی قابلیت اور دین کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں احادیث ہمارے سامنے آئیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت بہترین نمونہ ہے۔ حج کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں اور آپ کی خدمت میں مستعد تھیں۔ خود فرماتی ہیں:’’ میں سب سے عمدہ قسم کا عطر جو دستیاب ہوتا تھا، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لگانے کے لئے استعمال کرتی تھی، جب آپ احرام باندھنا چاہتے اور جب طواف افاضہ سے قبل احرام سے باہر آتے‘‘ ۔ (مسلم) ایک اور جگہ فرمایا:" میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سردھویا کرتی تھی حالانکہ میں ماہواری (حیض) سے ہوتی‘‘ ( بخاری) " رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر آپ اندر حجرے کی طرف کر دیتے اور صدیقہ رضی اللہ عنھا اسے دھودیتیں اور اس میں کنگی کر دیتیں ( متفق علیہ )۔ ام المومنین رضی اللہ عنھما نے عورتوں کی جماعت سے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت اگر تمہیں اس کا علم ہوجائے کہ شوہر کے حقوق کیا ہیں تو تم میں سے ہر ایک اپنے شوہر کے پاؤں کی دھول اپنے چہروں سے صاف کرے گی۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 'جو عورت پانچ وقت نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرتے ہوئے زندگی گزارے تو اس عورت کو اختیار ہوگا کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔ (مشکوۃ)
بیوی پر حق یہ ہے کہ ہمیشہ اپنے خاندان کی فرماں بردار بن کر رہے، اس کی نافرمانی نہ کرے، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے، شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے، اس کی مرضی کے بغیر اس کا مال خرچ نہ کرے، وہ کہیں چلا جائے تو اس کی غیر موجودگی میں اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، اس کے مال و اولاد کی نگہداشت میں مکمل خیر خواہی اور وفاداری کا ثبوت دے، شوہر کا احسان مانے، اس کی شکر گزار رہے، اس کے احسانات اور اس کی کاوش کو کبھی فراموش نہ کرے، اس کی خدمت کرکے خوشی محسوس کرے، اس کے ساتھ فراخ دلی اور خوش طبعی کا معاملہ کرے، اس کیلئے بناؤ سنگھار اور آرائش و زیبائش کا بھی پورا پورا اہتمام کرے، شوہر کے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے۔
جب بھی ہم کبھی نکاح کا انتخاب کریں تو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے کسی عورت کو نکاح کاپیغام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " تم اس عورت کو دیکھ لو، اس سے دونوں کے درمیان محبت پیدا ہوگی اور رشتے میں مضبوطی آئے گی۔ اگر گھر کے بڑے کبھی کوئی رشتہ جوڑتے ہیں تو ہمیں شریعت نے اجازت دی ہے کہ ہم پہلے دیکھ لے ایک دوسرے کو کہیںایسا نہ ہو کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے خوش نہ ہو۔ اگر پھر بھی ان کا نکاح ہوتا ہے تو اس سے دو گھروں کا سکون ،دو زندگیوں کا سکون خراب ہوتا ہے۔ اسلئے دین کے ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کی شکل و صورت ،کردار اور اخلاق پہ بھی نظر رکھیں اور یہی چیزیں ہیں جن سے ہمارے معاشرے میں امن سکون حاصل ہوگا۔ الغرض صحیح انتخاب ہی زندگی میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی اولادوں کیلئے ایسی نیک صالح بیوی کا انتخاب کرنے کی توفیق دے جو ان کے دین اور دنیا کی کامیابی کا سبب بن جائیں۔