پائین شہر کے علاقہ حول سے ملحقہ عثمانیہ کالونی وانٹہ پورہ میں منگل کی شام جس طرح ایک جواں سال لڑکی پر تیزاب حملہ کرکے اُسے بری طرح زخمی کردیاگیا،اُس نے ایک بار پھرہمارے سماج کے کھوکھلے پن کو عیاں و عریاں کردیا ہے ۔گوکہ پولیس نے فوری طور حرکت میں آکر کلیدی ملزم سمیت تین افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے اور بدھ کو سرینگر میں اس اندوہناک واقعہ کے خلاف احتجاج بھی ہوئے تاہم ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماج میں بنت ِ حوا کے خلاف تشدد کے واقعات آئے روز کسی نہ کسی صورت میں رونما ہوتے رہتے ہیں۔مانا کہ اوباش قسم کے نوجوانوں نے کل کا واقعہ انجام دیا تاہم جس انداز میں یہاں گھریلوتشدد کی صورت میں صنف نازک عتاب کا شکار ہے ،وہ کسی سے پوشیدہ نہیںہے اور ہمیں یہ مان کر چلنا چاہئے کہ جس قدر آگہی آئی ہے ،اُسی قدر ہماری بیٹیاں غیر محفوظ بن چکی ہیں۔کشمیر کو ریشیوں کی سرزمین کہاجاتا تھا اور یہاں عوام کی غالب اکثریت اس سنگین نوعیت کے جرائم کجا ،عمومی نوعیت کے جرائم سے نامانوس تھی حالانکہ تب وہ دور تھا جب اتنی آگہی نہیں تھی اور نہ ہی تعلیم اس قدر عام تھی لیکن شرم و حیا اور عورت کے عزت و احترام کا یہ عالم تھا کہ کھلے عام عورتوں سے بات کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن جوں جوں تعلیم کا نور پھیلتا گیا اور کشمیر کی غالب آبادی علم کے نور منور ہوئی ،اُسی رفتار سے انسان کے اندر کا وحشیانہ پن بھی سامنے آنے لگا ۔اب تو خواتین کے خلاف ظلم وزیادتیاں عام سی بات بن چکی ہے ۔اگر نیشنل کرائم بیورو کے گزشتہ برس کے اعدادشمار دیکھیں تو ایک افسوسناک صورتحا ل ابھر کر سامنے آتی ہے ۔یہاں صنف نازک کے خلاف زیادتیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔اوباش لڑکوں کی جانب سے راہ چلتی لڑکیوں پر فقرے کسنے سے لیکر گھر کی چار دیواری میں بہو بیٹیوںکے ساتھ ہونے والے مظالم چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ کشمیر ی سماج کا تانا بانا بکھر چکا ہے اور یہ سماج اپنے شاندار مرضی سے حال کی پستیوں میں گر چکا ہے ۔
اخلاقی انحطاط طوفان کی تیزی کے ساتھ ہمارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔بے راہ روی ،بد اخلاقی ،بے ایمانی ،رشوت خوری اور کنبہ پروری نے لوگوں سے غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔ اس پرطرہ یہ کہ اجتماعی حس نام کی چیز ہی جیسے عنقا ہوگئی ہے اور لوگوں کی اکثر یت اس تشویشناک صورتحال سے بالکل بے پرواہ ہے ۔ اگر چہ اس سب کیلئے کئی ایک عوامل کارفرما ہیں تاہم عمومی طور پر نوجوان نسل کی بے حسی اور انتظامی غفلت شعاری کو اس کی بنیادی وجہ قرار دیا جارہا ہے لیکن کیا واقعی ہماری نوجوان نسل اکیلی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوگئی ہے ؟۔ مسئلہ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دعویٰ حقیقت سے بعید نظر آرہا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان نسل جس راستے پر گامزن ہے، اس کی منزل اخلاقی اعتبار سے تباہی کے سوا کچھ اور نہیں لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ نوجوان نسل کی اس حالت کیلئے ہمارا پورا سماج ذمہ دار ہے ۔
سماج کی بنیاد افراد پرہے اور افراد کی پرورش سب سے پہلے گھر میں ہوتی ہے اور گھر کسی فرد کی پہلی دانش گاہ ہے ۔سماج کے بکھرائو کیلئے ہمیں پہلے اپنا اور اپنے گھر کا محاسبہ کرنا ہے ۔اگر گھر کا ماحول صحیح ہو توبچے کی صحیح انداز میں پرداخت ہونا قدرتی امر ہے ۔اس زاویہ سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے گھروں کے اندر وہ ماحول نہیں رہا ہے جہاں بچے کو واقعی مثالی انسان بننے کا درس دیا جاتا حالانکہ ماضی قریب میں یہی گھرانے اخلاقی قدروں سے انسانی وسائل کی تشکیل کرتے تھے اور نتیجہ کے طور پر ہر لحاظ سے مہذب اورجرائم سے پاک سماج قائم تھا جبکہ ان دنوں تعلیم اور تعلّم اورعلم وآگہی کو اتنا فروغ نہیں ملا تھا جتنا آج کل دیکھنے کومل رہاہے لیکن اس کے باوجود اخلاقی عروج کا یہ عالم تھا کہ بھیانک قسم کے جرائم ، جو آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں، سے کشمیری عوام قریب قریب نا آشنا تھے ۔اب علم و آگہی بھی ہے اورتعلیم بھی عام ہے لیکن سماج کا حال بے حال ۔نہ ماضی کی وہ آن رہی نہ شان بلکہ اب ہمارے کرتوت ایسے کہ شرم سے سر جھک جاتا ہے ۔گرد وپیش کی حالت کو دیکھیں تو زبان گنگ ہوجاتی ہے ، قلب و نگاہ مضطرب ہوجاتے ہیں مگر کیا یہی بے حسی اور خاموشی اس کا علاج ہے ،ہرگز نہیں ۔ کل جیسے واقعات پر ہماری خاموشی کا مطلب ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو ورثے میں ایک ایسا سماج دیتے جارہے ہیں جس کو کسی بھی طرح منظم اور مہذب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اس وقت بھی سماج کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوںکا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ حالیہ پیش آمدہ اخلاقیات سوز واقعات نے جس طرح سماج کے باشعور حلقہ کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے،اس کا تقاضا یہ تھا کہ ہم غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اپنے دل و دماغ پر حائل مادی پردوں کو ہٹا کر سماج کو بکھرنے اور اپنے کل کو اس دلدل سے نکالنے کی سبیل پیدا کرنے کیلئے عملی طورمیدان میں کود پڑتے لیکن ہمارا ضمیر اس حد تک خفتہ ہوچکا ہے کہ سماج کی عفت مآب بیٹیوں کی چیخ و پکار ہمارے بہرے کانوں تک پہنچتی ہی نہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے اور حکومت پر تکیہ کرنے کی بجائے ہم خود بیدار ہوجائیں اور اپنی شناخت کے تحفظ کیلئے کم از کم اس مسئلہ پر مادی دنیا کی تگ ودو سے چند لمحے نکال کرغور وفکرکریں کہ سماج کی موجودہ شرمناک حالت کیلئے کون سے عوامل ذمہ دار ہیں اور طوفان بدتمیزی کے بھنور میں پھنسی کشتی کو کیسے کنارے لگایا جاسکتا ہے ۔