سوال : آج کل مختلف مقامات پر خاندانوں ا ور برادری میں میت کمیٹیاں بنانے کا رواج چل پڑا ہے، اس کمیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی کے کسی ممبر کے گھر میں جب کسی فرد کی موت کا سانحہ پیش آجائے تو اس کی تجہیزوتکفین کا خرچہ برداشت کیا جائے، نیز میت کے گھر والوں اور تعزیت پُرسی کے لیے آنے والوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کمیٹی کا ممبر صرف ایک خاندان یا برادری یا محلے کے لوگوں کو بنایا جاتا ہے، ممبر بننے کے لیے شرائط ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہر ماہ یا ہر سال ایک مخصوص رقم جمع کرانا لازم ہے، اگر یہ رقم جمع نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص کمیٹی کی سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، عام طور پر یہ کمیٹیاں دو طرح کے اخراجات برداشت کرتی ہیں۔1۔کفن و دفن کے اخراجات، یعنی کفن، قبرستان تک لے جانے کے لیے گاڑی اور قبر وغیرہ کا خرچہ ۔2۔میت کے اہلِ خانہ اور مہمانوں کےچائےاور کھانے کا خرچہ۔شرعی نکتہ نگاہ سے تفصیلی وضاحت فرمایئے۔
مختار احمد یتو [email protected]
تعزیت کمیٹی کے لئے شرعی احکام کی بجا آوری بنیادی ضرورت
جواب: شریعت ِاسلامیہ نے مسلمان کے فوت ہونے پر تمام احکامات تفصیل سےبیان کردئے ہیں۔اُس میں کفن دفن ،جنازہ ،تدفین و تعزیت کے تمام مسائل واضح کردئے گئے ہیں۔میت کے پسماندگان کے ساتھ اظہار ہمدردی اور اُن کو کھانا کھلانے (تاکہ وہ غم زدگی کی بنا پر بھوکے نہ رہ جائیں)کا حکم بھی ہے۔میت کے لئے کفن ،غسل ،قبر کی تیاری،جنازہ اور پھر تدفین اور اُس کے بعد تعزیت کےلئے آنے والے احباب و اقارب کے تمام امور کو انجام دینے کا حکم ہے مگر اس کے لئے کوئی کمیٹی بنانے کا اقدام کبھی نہیں پایا گیا،نہ دورِ نبوت میں ،نہ عہدِ صحابہ میں،نہ فقہا ومحدثین ،نہ اولیا ئے کرام کی زندگیوں میں اور اُن کے ارشادا ت میں کمیٹی بنانے کا کوئی ذکر ہے۔آج بھی پورے عالم میںجہاں جہاں مسلمان ہیں ،کہیں بھی کفن دفن کمیٹی کا کوئی سراغ نہیں ہے۔خود یہاں کشمیر کی پوری اسلامی تاریخ میں کمیٹی بنانے کو کوئی واقعہ نہیں ملتا۔کمیٹی بنانے کا یہ رواج پچھلےبیس پچیس برسوںسے شروع ہوا ہے۔اب اگر یہ کمیٹی شرعی احکام کی بجاآوری شرعی حدود میں کرے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں،اس لئے جو احکام میت کے پسماندگان اور قریبی رشتہ داروں کو انجام دینے میں وہ احکام اُنہی حدود و قیود کے ساتھ کمیٹی کے حضرات منظم طور پر انجا م دیں تو ایسا ہی ہوگا، جیسے مساجد یا مقابر کے لئے انتظامیہ تشکیل دی جائے۔لیکن میت کے فوت ہونے کے بعد ہر جگہ خصوصاً برصغیر میں جو غیر شرعی رسوم اور بدعات پائی جاتی ہیں ،اگر اُن غیر شرعی بدعات اور رسوم کو انجام دینے کے لئے یہ کمیٹی بنائی جائے تو پھر یہ درست نہ ہوگا ۔مثلاً میت کے گھر والوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے مگر تمام تعزیت کرنے والے افراد یا وہ رشتہ دار جو تعزیت کے لئے آئیں اور پسماندگان کے گھر میں ہی قیام پذیر ہوجائیں ،اُن کے کھانے کا ایسا انتظام اور طرز ِ اہتمام جیسے دعوتوں میں ہوتا ہے تو یہ صحیح نہ ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ جو کام شریعت کے ضوابط کے مطابق ہیں ،وہ افراد میت انجام دیں یا کمیٹی کے افراد ،اُس میں کو ئی مضائقہ نہیں اور جو جو کام بدعات میں آتے ہیں یا وہ غیر شرعی رسوم کے قبیل سے ہوں یا فضول خرچی کے زمرے میں آئیں ،اُ ن کو انجام دینا نہ پسماندگان کے لئے درست ہے اور نہ کسی کمیٹی کے لئے۔اگر کسی جگہ کمیٹی بنائی ہو تو پہلے شرعی ضوابط معلوم کئے جائیں ،پھر کمیٹی بنائی جائےاور اگر کہیں بنائی جاچکی ہے تو وہ کمیٹی کے افراد اچھی طرح سے یہ طے بھی کرلیں اور جائزو ناجائز حدود،سنت و بدعت کی تعیین کسی مستند عالم سے معلوم کرکے اُن پر عمل پیرا ہونے کا عہد کریں۔اس کے بعد ہی یہ کمیٹی اپنا کام کرے۔ایسا نہ ہو کہ جن بدعات اور رسوم کو اسلام مٹانا چاہتا ہے ،یہ کمیٹی اُن تمام بدعات کو منظم طور پر انجام دینے کا کام کرے۔کمیٹی بنانے کے لئے انتظامیہ،ممبران،ممبری فیس اور اُس کے بعد اپنے ہاتھ میں جو جو کام کمیٹی کے افراد لینا چاہتے ہیں ،اُن کی تفصیل نقل کی جائے تاکہ ایک ایک چیز کے متعلق شرعی حکم لکھا جائے۔اس کی پوری تفصیل کے بعد یہ لکھنا ضروری ہے کہ میت کے متعلق تمام احکام کی عمل آوری اصلاً میت کے پسماندگان کے ذمہ اور پسماندگان کو کھاناکھلانا اور وہ بہت سادہ سے سادہ بغیر تکلف اور تنوع کے ،یہ ہمسایوں کے ذمہ ہے ۔اس کے لئے نہ پورے دورِ اسلامی میں کہیں کمیٹی تھی اور نہ ہی آج دنیا میں کہیں ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ جیسے آج تک یہ عمل ہوتا رہا ہے ،آج بھی اسی پر کاربند رہیں۔اس لئے کمیٹی بننے کے بعد حدود پر قائم رہنا اور غیرشرعی امور سے اجتناب عموماً مشکل ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال : اگر کسی شخص نے نس بندی کی ہوگی تو کیاوہ امامت کے فرائض انجام دے سکے گا؟
عبدالحمید ،خانیار سرینگر
نسبندی کرانے والے شخص کی امامت مکروہ تحریمی
جواب : شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کی رو سے امت مسلمہ کی کثرت مطلوب ہے ،اس لئے قرآن کریم میں دو مقامات پر ارشاد ہوا کہ اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل مت کرو۔(سورہ بنی اسرائیل و انعام )آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ہم تم کو روزی دیتے ہیں ،اُن کو بھی دیں گے ۔‘‘حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسی خواتین سے نکاح کرو جو بہت محبت و شفقت کرنے والی بھی ہوں اور بہت بچے پیدا کرنے والی بھی‘‘۔(ترمذی)
قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ انسان بچے کے پیدا ہونے پر افسوس کریں گے (طبرانی)یعنی وہ سِرے سے اولاد کے خواہش مند نہ ہوں گے اور اولاد کی پیدائش روکنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریںکریں گے ،پھر بھی اگر اولاد پیدا ہوگئی تو غضب ناک ہوں گے،افسوس کریں گے اور اپنی پُر تعیش زندگی میں اولاد کو خلل ڈالنے والی سمجھیں گے۔چنانچہ آج پورے عالم خصوصاً مغربی اقوام میں اس کا مشاہدہ عام ہےکہ مردوعورت دونوں اولاد کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں ۔غرض کہ اسلام میں تکثیر اولاد مطلوب ہے ،اس لئے ہر وہ تدبیر جو اولاد کو روکنے کا ذریعہ ہو ،وہ اسلام میں درست نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نس بندی بھی حرام ہےاور یہ گناہِ کبیرہ ہے ،کیونکہ یہ دراصل قطع نسل کا ذریعہ ہے اور اسی لئے اس کو اختیار بھی کیا جاتا ہے۔چنانچہ جس شخص نے مزید اولاد سے بچنے کے لئے نس بندی کرائی ہو ،اُس نے چونکہ گناہِ کبیر ہ کا ارتکاب کیا ہے ،اس لئے اُس شخص کو مستقل امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام میں رخصت اور آسانی دینے کا بھی وسیع سلسلہ ہے ،اس لئے بہت سارے احکام میں تخفیف د ی جاتی ہے ۔چنانچہ اگر کسی خاتون کو متعدد آپریشن کئے گئے اور اب مزید سیزر اُس کے لئے ممکن نہ ہوں یا کوئی خاتون امراض قلب کا شکار ہو ،اس لئے ڈاکٹر مزید حمل اُس کے لئے خطرہ سمجھتے ہوں یا کوئی خاتون خون کی کمی کا شکار ہو یا اور کوئی ایسی جسمانی وجہ ہو جو اُس کے لئے حمل سے مانع بنے اور ماہر مسلمان معالج یہ حکم دے کہ اب اس کے لئے مزید حمل خطرہ ہے تو ایسی صورت میں نس بندی کرنے کی اسلام میں بوجہ عذر اجازت ہے ،اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اجنبی مرد ڈاکٹر کے ذریعے وضع حمل کا آپریشن کرانے کی اجازت ہے۔اگر اس طرح واقعی عذر کی بنا پر بچہ بند کراناپڑا ہو تو اُس شخص کی امامت درست ہے، جس کی زوجہ کو اس واقعی عذر کی بنا پر نس بندی کرانی پڑی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین ،اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک لڑکے اور لڑکی کا آپس میں خوشدلی سے رشتہ ہوا۔تحفہ تحائف اور زیورات بھی دیئے گئے ،نکاح ابھی نہیں ہو اکہ دونوں کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا ہوا،حتیٰ کہ رشتہ منقطع کرنے کا فیصلہ ہوا۔دونوں اطراف کے افراد اور برادری کے ذمہ دار افراد نے یہ فیصلہ کیا،کیونکہ رشتہ سے انکار شوہر نے کیا تو اب ہمارا سوال یہ ہے کہ اس بارے میں شرعی حکم کیاہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر لڑکے کی طرف سے رشتہ ختم کرنے کا اظہار ہوا اور وہی اس پر اصرار کرے کہ مجھے یہ رشتہ باقی نہیں رکھنا ہے تو شرعی حکم اس بارے میں کیا ہے؟۔واضح طور تحریر کیجئے۔
غلام محمد ۔ سرینگر
طے شدہ رشتہ توڑنے پر ھدایا وتحائف کی واپسی کا معاملہ
جواب: رشتہ طے ہونے کے بعد اگر چہ نکاح نہ ہوا ہو ،اور لڑکے کی طرف سے رشتہ کا انکار ہوجائے تو تحائف اور ھدایا بطور ہبہ لڑکی کو دیئے گئے ہوں ،اُس لڑکے کو حق نہیں کہ وہ دیئے گئے ھدایا اور تحفے واپس لینے کا مطالبہ کرے۔چنانچہ فتاویٰ محمودیہ (ص۔۱۲۵،ج۔۱۲)میں ہے ۔اگر عورت کی طرف سے انکار ہوجائے تو لڑکے کو واپسی کا حق ہوتا ہے ،صورت منقولہ میں عورت کی طرف سے انکار کا ذکر نہیں کیا گیا ۔اگر لڑکی والوں کی طرف سے انکار نہیں کیا تو اُن سے کچھ واپس نہیں لیا جاسکتا ۔۔۔شرح معانی الاَثار میں ہے۔قال ابراھیم اذاو ھبت المرا ۃ لزوجھااو وھب الرجل لا مرا تہ ٗفالھبۃجائزۃ ولیس لواحدمنھما ان یرجع فی ھبتہٗ ۔( ترجمہ ۔ اگر زوجہ نے شوہر کو یا شوہر نے زوجہ کو کچھ تحفے دیئے ہوں تو یہ جائز ہے اور کسی کو بھی واپس مانگے کا حق نہیں ہے۔)
(باب الرجوع فی الھبتہ،رقم ۵۷۰۲ کتاب المسائل میں ہے)
تقریبات کے موقع پر فریقین کے رشتہ داروں کو آپس میں جوتحائف دیئے جاتے ہیں، عموماً اُن کے واپسی کی نیت نہیں ہوتی ۔لہٰذا اُن کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔(ص۔۵۰۱،ج۔۱)لہٰذا اوپر درج شدہ حوالہ جات کے مطابق لڑکے کے انکار کرنے کی صورت میں دیئے گئے تحائف کی واپسی کا مطالبہ شرعاً درست نہیں ہے۔