خطہ چناب اور پیر پنجال کے علاوہ جموں و کشمیر کے ریاسی ضلع کے بالائی علاقوں میں ہر سال برسات کے موسم میں تیز آندھیوں،بارشوں اورژالہ باری سے فصلوں اور میوہ جات کو کافی نقصان پہنچتا ہے لیکن کبھی بھی کسانوں ،زمین داروںاور مالکانِ میوہ باغات کو اس نقصان کا معقول معاوضہ فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔ریاسی ضلع کے بالائی علاقہ جات چلدھ، جڈا،تھرو،ہاڑیوالہ،بدھن،جمسلان،سلدھار، سجروبٹھوئی،جملان، ساڑھ،بگا،بھل،انگرالہ،ٹکسن،لار،کھوڑ، برنسال، گلابگڑھ، کیدورہ، دیول، ڈوگا، طولی، نہوچ، شبراس، اڑبیس، بدر،چثوت،منجیکوٹ،بگوداس، چانہ، باگنکوٹ، ممنکوٹ، شیرگڑی، شکاری اورشیدول وغیرہ میںمکی کی کاشت ہوتی ہےاورجابجادھان کی کاشت بھی ہوتی ہے۔وہیںعلاقہ سردہونے کی وجہ سے یہاںمیوہ جات سیب، ناشپاتی، خوبانی اوراخروٹ کی پیداوار ہوتی ہے مگر ہر سال برسات کے موسم میں ژالہ باری اور تیز بارشوں کی وجہ سے فصلوں اور میوہ جات کو کافی نقصان پہنچتا ہے ۔گذشتہ سال بھی بے وقت بارشوں اور ژالہ باری سے فصلوں اور میوہ جات کو کافی نقصان پہنچا۔ لیکن متعلقہ محکمہ جات کے کسی بھی آفیسر نے علاقہ کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی نقصان کا تخمینہ لگایا۔مختلف مقامات سے مقامی لوگوں نے کہنا ہےکہ انہوں نے کئی مرتبہ انتظامیہ کو نقصان کے حوالے سے آگاہ بھی کیا لیکن اس کے باوجود بھی نقصان کا تخمینہ لگانے کیلئے انتظامیہ کی کوئی ٹیم موقع پر نہیں آئی۔ڈوگاؔ کے معزز شہری چودھری مشتاق نے بتایا کہ اُن کے گاؤں میں گذشتہ سال تقریباً 40 فیصد فصلوں کو نقصان پہنچا اور انہوں نے نقصان کے حوالے سے انتظامیہ کو آگاہ بھی کیا لیکن پھر بھی علاقہ میں انتطامیہ کی کوئی ٹیم جائزہ لینے نہیں آئی۔ ڈوگا کے یہ غریب لوگ گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ تمام لوگ کھیتی پر ہی گزارا کرتے ہیں مگرجب بھی ناگہانی آفات سے ان کی فصلوں کا نقصان ہوتا ہےتو انہیں ریاستی انتظامیہ کی طرف سے کوئی امداد فراہم نہیں کی جاتی۔جس کے باعث یہاں کی آبادی مصائب و مشکلات کا شکار رہتی ہے،اسی طرح سے دیولؔ کے رہاشی سابق نائب تحصیلدار عبدالرشید نے بتایا کہ دیول پنچایت میں بھی بے وقت بارشوں اور ژالہ باری سے فصلوں کوکافی نقصان پہنچااور حسب روایت انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں ملی ۔انہوں نے کہا کہ دیول پنچایت کے لوگ جو مقامی فصل مکی اور دھان پر ہی گزارا کرتے ہیں ،کی مکی اور دھان کی فصلوں کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔مہورؔ کے ایک سماجی کارکن رفیع شاہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سب ڈویژن مہور کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا، جہاں پر زیادہ تر لوگوں نے فصلوں کو ہونے والے نقصان کی شکایات درج کروائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب ڈویژن مہور کے دور دراز گاؤں کے دورہ کے دوران متاثرہ لوگوںکو درپیش مشکلات کی روئدا د سُنیںاور لوگوں کو ہونے والے نقصانات کی فہرست بنائی ہے۔سب ڈویژن درماڑی کے ایک مقامی صحافی کرامت اللہ نے کہا کہ مجھ سےبھی سب ڈویژن درماڑی کے دور دراز دیہات سے لوگوں نے شکایات کیں کہ سال گذشتہ برسات کے موسم میں لوگوں کو فصلوں اور میوہ جات کا کافی نقصان ہوا، لیکن حکومت کی جانب سے معاوضہ فراہم کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس ضمن میںمقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بلند بانگ دعوےتو کئے جاتے ہیں کہ غریبی کو مٹا دیا جائے گا لیکن اس علاقہ کے غریبوں کی کوئی خبر نہیں لے رہا ہے۔ان کے مطابق اگرچہ جموں وکشمیر کے بیشترعلاقوں میں ژالہ باری یا شدید باشوں سے ہونےوالے فصلوں کے نقصان کا تخمینہ لگانے کیلئے ٹیمیں روانہ کی جاتی ہے مگرریاسی ضلع کے پہاڑی علاقوں کا کوئی پرسان حال نہیںہوتا۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں برسات کے موسم میں فصلوں کوزبردست نقصان پہنچتا ہے وہیں جو بچی ہوئی فصلیںپک جاتی ہے تو دور دراز علاقہ جات میں جنگلوں سے ریچھ گاؤں کی طرف رخ کرتے ہیں اور وہ فصلوں کا صفایا کرتے ہیں۔مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ کویڈ۔19 کی جہ سے جہاں پورا عالم پریشان ہے اور غریب شخص کہیں مزدوری کرنے کیلئے بھی نہیں جا سکا،تو اُن کی ساری اُمیدیں فصلوں پر ہی لگی رہتی ہیں۔ مگر موسمی صورتحال اُن کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔وہ انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ علاقہ جات میں فصلوں کو ہوئے نقصان کا تخمینہ لگائیں اور غریب کسانوں کو معقول معاوضہ فراہم کریں۔
ضلع ترقیاتی کونسل کی نائب چیئر پرسن ایڈوکیٹ ساجرہ قادرکا کہنا ہے کہ وہ اُن دنوں خود علاقہ کے دورے پر تھیں اور مختلف مقامات سے لوگوں نے ان کے پاس یہ شکایات درج کروائی کہ ان کے فصلوں اور میوہ جات کو کافی نقصان پہنچا ہے مگر متاثرین کو معاوضہ فراہم نہیں کیا گیا۔ایڈوکیٹ ساجرہ قادر نے اس سلسلے میںانتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ اس علاقہ کی طرف توجہ دی جائے اور لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔اس سلسلہ میں جب سرکاری موقف جاننے کے لئے تحصیلدار مہور شاہد اقبال سے بات کی تو ان کا جواب گاؤںوالوں سےبالکل برعکس تھا۔انہوں نے کہا کہ متاثرین کو جائز معاوضہ فراہم کیا جاتا ہے ۔لیکن اس علاقہ میں فصلوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا ہے جبکہ گزشتہ برسوں سے اس سال زیادہ مکی کی کاشت ہوئی اور اخروٹ بھی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال زیادہ ہوئے ہیں۔
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ عوام اور عوامی نمائندے شکایات کر رہے ہیں کہ فصلوں کا نقصان ہوا ہے اور انتظامیہ کی جانب سے معقول معاوضہ فراہم نہیں کیا گیا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ ہر سال برسات کے موسم میں فصلوں کا نقصان ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسانوں اور کاشتکاروں کو بڑا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے بروقت معاضہ فراہم نہ کرنا افسوس کن لمحہ ہے کیونکہ نقصان کے بعد کسانوں کو فائلوں کی خاطر دفاتر کے بے تحاشہ چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور آخر میں معاوضے کے نام پر کبھی نہ ختم ہونے والا یقین دہانیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔