جموں//زراعت کی پیداوار اور کسانوں کی بہبود کے پرنسپل سیکرٹری نوین کمار چودھری نے سول سیکرٹریٹ میں انٹر نیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ ( آئی ایف اے ڈی ) اور نبارڈ کے ساتھ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں کی ترقی کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ۔ انہوں نے دونوں اداروں کے ماہرین سے کہا کہ وہ مٹن کی پیداوار بڑھانے اور پھلوں کے درختوں ک جگہ اعلیٰ کثافت والے جڑوں کے ذخیرے کیلئے طویل مدتی منصوبہ بنائیں ۔ انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ان مداخلتوں کے امکانات کو بھی دیکھیں جو ماہی گیری اور ڈیری کے شعبوں کے فروغ کیلئے کی جا سکتی ہیں۔پرنسپل سیکرٹری نے دورہ کرنے والی ٹیم کو بتایا کہ باغبانی جموں و کشمیر کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی بنیاد ہے اور ہماری معیشت میں بھی نماں حصہ ڈالتی ہے ۔ انہوں نے اسے جموں و کشمیر کی معیشت کا بنیادی شعبہ قرار دیا کیونکہ یہ صنعت پر مبنی نہیں ہے ۔ انہوں نے انہیں بتایا کہ یو ٹی تقریباً 22000 میٹرک ٹن سیب پیدا کرتا ہے جس کے مقابلے میں اس کے پاس صرف 2000 میٹرک ٹن کا سی اے ذخیرہ ہے ۔ انہوں نے انہیں مزید بتایا کہ حکومت کاشتکاروں کو حتمی حل فراہم کرنا چاہتی ہے تا کہ نہ صرف ان کی پیداوار میں اضافہ ہو بلکہ پیداوار کے معیار ، اسٹوریج ، پیکجنگ، گریڈنگ اور مارکیٹنگ کو بھی فروغ ملے ۔ انہوں نے آئی ایف اے ڈی اور نبارڈ پر زور دیا کہ وہ کسانوں کی آمدنی میں تیزی سے اضافہ کرنے کیلئے دیگر مداخلتوں کے علاوہ پودے لگانے کی نئی زیادہ پیداوار والی اقسام کے ساتھ کم سے کم ممکنہ طریقے سے حل فراہم کریں ۔ نوین نے ٹیم کو یہ بھی بتایا کہ جموں و کشمیر مٹن اور پولٹری کا سب سے بڑا صارف ہے لیکن مقامی طور پر اس کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا ۔ انہوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ مقامی معیشت کو تقویت دینے کے علاوہ نوجوانوں کے لئے روز گار پیدا کر کے جموں و کشمیر میں اس کی پیداوار کو بڑھانے کے طریقے اور ذرایع تلاش کریں ۔ پرنسپل سیکرٹری نے آئی ایف اے ڈی ٹیم پر بھی زور دیا کہ وہ یو ٹی میں ماہی پروری کی ترقی کے راستے تلاش کرے ۔ ٹیم نے یہاں جموں و کشمیر میں رائج متعدد پالیسیوں اور اسکیموں کے بارے میں جانکاری حاصل کی ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ دونوں اطراف سے ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو موضوع کی مزید تفہیم کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھیں ۔ زراعت ، باغبانی ، حیوانات ، بھیڑ پالنے ، ماہی پروری ، کمانڈ ایریا ڈویلپمنٹ اور دونوں ڈویژنوں کے تمام شعبوں کے سربراہان نے اپنی موجودگی کی بنیاد پر آف لائن اور ورچول موڈ کے ذریعے میٹنگ میں شرکت کی ۔