مختلف بازاروں میں مختلف قسم کے تجارت اور کاروبار کے حوالے سے ناجائز معاملات رائج ہیں ، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اس کے سارے معاملات جیسے:خرید وفروخت، کرایہ پر دینا اور لینا اور کھیتی باڑی کرنا وغیرہ سب شریعت کے مطابق جائز اور درست ہوں، تاکہ اس کی روزی حلال ہو، حرام اور ناجائز معاملات سے بچنا ضروری ہے، لیکن ان ساری جزئیات کا احاطہ کرنا یہاں مشکل ہے۔
البتہ اصولی طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ شریعت ِ مطہرہ میں خرید وفروخت کے جائز ہونے کے لیے بہت سی بنیادی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، ان شرائط میں بعض کا تعلق اس معاملے کے منعقد ہونے سے ہوتا ہے، پھر اس (انعقاد کی شرائط ) میں سے کچھ کا تعلق عقد کرنے والے سے ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ عقد کرنے والا عاقل اور معاملے کا شعور رکھنے والا ہو، اور جانبین سے معاملہ کرنے والے الگ الگ افراد ہوں، ایک ہی آدمی خریدنے اور بیچنے والا نہ ہو اور کچھ کا تعلق خود نفسِ معاملہ سے ہوتا ہے، مثلاً خریدنے یا بیچنے والے میں سے ایک معاملہ کا ایجاب کرے تو دوسرا فریق اسی کے مطابق قبول کرے اور کچھ کا تعلق بدلین (خریدی جانے والی چیز اور اس کے ثمن) سے ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ عقد کے وقت ان کی مالیت قائم ہو یعنی وہ مال ہو اور کچھ کا تعلق مبیع یعنی خریدی جانے والی چیز سے ہوتا ہے، مثلاً وہ موجود ہو، معدوم نہ ہو، اور وہ چیز مملوکہ ہو اور بیچنے والے کی ملکیت میں ہو، شرعاً مال ِ متقوّم ہو، اس کے حوالہ کرنے پر قدرت بھی ہو۔
بعض شرائط کا تعلق معاملہ کے نافذ ہونے سے ہوتا ہے، یہ دو شرطیں ہیں: بیچنے والی کی چیز پر ملکیت ہو یا اس کی ولایت اور اختیار اسے حاصل ہو، اور اس میں بیچنے والے کے علاوہ کسی اور کا حق نہ ہو۔
بعض شرائط کا تعلق معاملے کی صحت و درستی سے ہوتا ہے، مثلاً یہ کہ وہ کسی وقت کے ساتھ مقید نہ ہو، اور مبیع (بیچی جانے والی چیز) معلوم اور متعین ہو، اور اس کا بدل (ثمن) بھی معلوم ہو ، لہٰذا مجہول چیز کی خرید وفروخت درست نہیں ہے، نیز اس خرید وفروخت میں کوئی فائدہ بھی ہو، اس میں کسی قسم کی فاسد شرط نہ ہو، پھر اس کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اسی طرح ادھار معاملے میں مدت متعین ہو، مجہول نہ ہو، منقولی چیز ہو تو اسے فروخت کرنے سے پہلے اس پر قبضہ بھی کرلیا ہو، او دو ایسی چیزیں جن کی جنس ایک ہواور وہ قدر (کیلی ہونے یا وزنی ہونے ) میں بھی متحد ہوں تو خرید وفروخت میں ان کا برابر ہونا اور دونوں جانب سے نقد ہونا ضروری ہے، یعنی جس مجلس میں خرید وفروخت ہو ،اسی میں جانبین سے قبضہ بھی پایا جائے۔
یہ اجمالاً اور اختصاراً خرید وفروخت کی کچھ شرائط کا ذکر ہے، معاملات میں ان کا خیال رکھا جائے، اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ وہ معاملہ سودی لین دین، رشوت، جھوٹ، خیانت ، دھوکا دہی ، جوا وغیرہ جیسے گناہوں پر بھی مشتمل نہ ہو، اس کے علاوہ اگر کبھی کسی خاص مسئلے میں راہ نمائی کی ضرورت ہو تو وہ سوال لکھ کر ارسال کردیجیے۔