عصر حاضر میں دنیائے انسانیت کو جن بڑے اور پیچیدہ مسائل نے آگھیرا ہے ،ان میں صنف نازک پر ڈھایا جارہا ظلم وستم اور استحصال بھی سر فہرست شامل ہے۔اگر چہ اس ظلم وبر بریت کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن دور جدید میں عورتوں پر جس طرح سے خوب صورت پیرائے،خوشنما اندازا ور دلفریب اسلوب میں شب خون مارا جارہا ہے، وہ حقو ق ِ نسواں پر ایک بدنما داغ ہے ۔ ماں ، بہن ، بیٹی کو ہر طرف اور ہر جگہ ایک کمرشل شئے کے طور پر ) Comoditize) کر کے انتہائی بے باکی ، بے شرمی اور ڈھٹائی سے پیش کیا جارہا ہے اور اس کی ہر ادا اور جنبش وحرکت کو ماڈرن ازم کے متوالے مالی منفعت کے حصول کے لئے استعمال کئے جار ہے ہیں۔ اس بے شرمی میںصرف مردوں کا ہی قصور نہیں ہے بلکہ خود جد ید یت کی سگ گزیدہ عورتیں بھی اپنی اسی بدحالی اور بے توقیری میں ہی اپنی عزت ومساوات، ترقی اور فلاح ذریعہ سمجھتی ہیں، اور وہ نتائج سے لاتعلق ہوکر اس دام ِفریب میں آسانی سے شکار ہوچکی ہیں ۔ اس میں دورائے نہیں کہ فطرت نے مرد اور عورت کا الگ الگ دائرہ کا ر متعین کر رکھا ہے لیکن جب اس اصول اور قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اس کا انجا م بھی تباہ کن نکلا ۔دور حاضر میں عورت کا جس طرح سے منظم انداز میںاور بڑے پیمانے میں پر استحصال کیا جارہا ہے وہ تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا ۔ کمال ِ فن دیکھئے کہ عورت کے استحصال کو آج نت نئے دلکش ناموں ، دلفریب نعروں اور اصطلاحات سے مزین کر کے عورت ذات کے وجود کو پامال کیا جارہا ہے، کہیں حقوق نسواں یا فیمنزم کے نام سے اس کی نازک ساخت اور فطرت پر حملہ کیا جارہا ہے، تو کہیں مساوات مرد وزن جیسے دلربا عنوان سے اس کے تشخص کو مجروح کیا جارہا ہے ۔ حقوق نسوا ں کی تحریکوں نے خواتین کے حقوق کے نام پر صنف ِنازک کو ہی نیلام کر کے ان کونسوانی فطرت سے بغاوت کرنے پرمجبور کیا ہے۔ کہنے کوان تحریکوں کا بنیادی مقصد عورتوں پر ہورہے ظلم و جبر اور اور استحصال سے انہیں آزادی دلانا ہے اور ان کے حقوق کے تئیں ان میںبیداری پیدا کرنا ہے۔ یہ تو صحیح اور مستحسن طرز عمل ہوتا اگر واقعی ان مقاصد کی آبیاری کی جاتی لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیںہورہا ہے ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ حقوق نسواں کے تمام نعرے کھوکھلے اور عورتوں کی تذلیل کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔ حقوق نسواں کے علمبرداروں کے مطابق آج سماج پر صرف مردوں کا دبدبہ اور تسلط ہے اور مردوں کے تسلط سے چھٹکارا حاصل کرنے لے لئے عورتوں کو سب سے پہلے اپنی برتری دکھانے کے لئے مردوں خلاف ہر لحاظ سے محاذ سنبھالنا ہوگا اور اس کے لئے ہر ممکن طریقے سے جنسی تفریق ختم کرنی ہوگی جو کہ ایک ناممکن العمل جھوٹا پندار ہے ۔
فیمنزم سے تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کا سب سے غالب تصور یہ ہے کہ عورت مرد کے شانہ بہ شانہ چلے، جہاں مرد کی ضرورت ہو وہاں عورت بھی اپنا رول ادا کرے ۔ اس تصور کے تحت گھر، خاندان اور سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے کی بجائے عورت کو بازار کی زینت ،تجارت بڑھانے کی اشتہاری ضرورت اور جنسی تسکین کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ بنایا گیا اور یہی نام نہادفیمنزم تحریک کا بنیادی مقصد دِ کھ رہا ہے ۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سماج کے تعلق سے ہر شعبہ میں مرد پن (maleness)غالب ہے اور ہر چیز،مسئلے اور معاملے کو مرد کی نگاہوں سے سوچا، سمجھا اور حل کیا جاتا ہے ۔فیمنزم تحریک کی آواز ان خیالی قصوں کے خلاف ایک نمائشی چیز ہے جس میں فریب کار مرد عورت کو بہلا پھسلاکر اس کا مزید استحصال کریا جاتاہے ۔ اسی آوارہ سوچ کو ظالم مردوں کے خلاف مظلوم مستورات کے رد عمل کا نام دیا گیا ہے۔ حالانکہ تحریک نسواں میں شامل آزاد پسند یا تہذیب ناآشنا اور مغرب کی دلداہ عورتوں پیش پیش ہیں جن میں اکثریت احساس کمتری کی شکار ہیں یا سماجی زندگی سے یکسر منہ موڑ کر اپنی جھوٹی دھاک بٹھانے کے لئے نعرہ بازیاں کر تی ہیں مگر مظلومیت کی شکار عورت کو ظالموں کی چنگل سے آزاد نہیں کر تیں ۔ان کا تصور یہ ہے کہ عورت کو ماں بننے کی صلاحیت سے آزاد کر دیا جائے اور عورت کو بچے پیدا کر کے ان کی پرورش کرنا اور گھر سنبھالنے سے فارغ کر دیا جائے ۔ اس سوچ کی حامل عورتیں انسانی نسل کو بڑھانے کے لئے حیوانات کی طرح مصنوعی تخم کاری (Artificial Insemination ) جیسے حیوانی خیالات اور عمل کو فروغ دے رہی ہیں ،کیونکہ اب وہ مرد کی شریک حیات بننے کے لیے تیار نہیں ۔ ان کے ہاں اب ہم جنس پرستی کوئی مذموم اور قبیح عمل نہیں ، فیمنزم اور ہم جنس پرستوں کے درمیان آپس میں گہرا تال میل ہے۔ یورپ اور مغرب میں ہم جنس پرستوں نے ہی تحریک آزاد یٔ نسواں یا فیمنزم کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے تمام اخلاقی قدروں اور سنسکاروںکو پائوں تلے روند ڈالا ہے ۔ اس لئے تحریک نسواں کا یہ مشہور نعرہ ہے :
"Feminism iz the theory ….Lisbism is the practice "
یعنی فیمنزم صرف ایک نظریہ ہے جب کہ ہم جنس پرستی اس کی عملی شکل ہے ۔
۱۹۶۰ء کی دہائی میں مغربی دنیا میں تحریک نسواں کو آگے بڑھانے میں جنسی انقلاب(Sexual Revolution ) نے مہمیز کا کام دیا ۔ یہ وہ دور ہے جس نے تحریک نسواں کو ایک نئی سمت دی۔ اسی دور میں میں تمام اخلاقی قدروں اور عورت کی عزت و عفت کو تار تار کیا گیا اور اس کے حسن اور اس کا جسم عالمی منڈی میں فروخت ہونے لگا اور عورت کی اس بے لگام آزادی کو ہر خاص و عام کے لئے دستیاب رکھا گیا ۔ اس کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ عورت خود اس ذلت آمیز کام میں بال سوچے سمجھے کود پڑی ۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حقوق نسواں کے علمبرداروں نے خواتین کے ہمدردہو نے اک سوانگ رچاکرانہیں فحاشی ،عریانیت اور آوارگی کرنے پر مجبور کر دیا ۔ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ کثرت سے مادی منافع کا حصول ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ عورت نے خود اپنے آپ کو آزاد کر نے پر مغرب میں خاص کر ذلیل ورسواکیا ہے ۔جنسی آوارگی ، فحاشی اور عریانیت ، کے کارووبار کو جائز قرار دینے اور اس کام کو منظم بنانے کے لئے نت نئے اصطلاحات استعمال ہورہی ہیں جیسے sex worker ،call girl ، آرٹسٹ،پورن سٹار وغیرہ وغیرہ۔ مغربی اور یورپی دنیا میں یہ اب بڑی صنعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جس میں کروڑوں ڈالرس کا منافع کمایاجارہا ہے اور سار خسارہ بچاری عورت کی جھولی میں آرہاہے ۔ اس صنعت کی آمدانی میکروسافٹ وئیر اور گوگل جیسی کمپنیوں سے زیادہ ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق صرف امریکہ میں ایک فاحشہ (prostitute)تین ہزارس فی گھنٹہ کماتی ہے ،یہ اگر روزانہ بارہ گھنٹہ کام کرے تو اس کی روزانہ آمدانی ۳۶ ہزار ڈالرس ہوتے ہیں جو کہ ایک امریکی پروفیسر کی سالانہ آمدنی کے برابر ہے ۔ یہ کم نصیب ماہانہ ۱۰ ہزار ڈالرس کماتی ہے جو کہ امریکہ کے سپرم کورٹ کا چیف جسٹس کی سالانہ آمدانی سے چار گنا زیادہ ہے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مردوں نے عورت کے جسم سے کپڑا اُتر وا کر اب اس پر چوطرفہ حملہ ہورہا ہے ۔ حقوق نسواں کی تحریکوں نے مردوں کے مساوی حقوق دلانے کے چکر میں اور اسے گھر سے باہر نکالنے کے بعد جو کچھ ہم بھگت رہے ہیں وہ کسی بھی فرد بشر سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔ کسی حد تک اس کا اندازہ Rape and Sexual Assualt جون ۲۰۱۴ء کی رپوٹ سے ہوتا ہے ۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق :
Nearly 22 million have been raped in their life , 1.6 million men have been raped during their lives.
۲۰۱۰ ء میں Center for Disease and Controle نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق اس سال ۱۲۵؍ ملین امریکی خواتین جنسی استحصال کی شکار ہوئیں ۔ اس کا مطلب امریکہ میں ہر ۲۹ سکنڈ میں ایک خاتون زنا بالجبر کی شکار ہوجاتی ہے ۔ ایک اور پرائیوٹ ادارے Rainn Rape Abuse And Incest National Net work کی سالانہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سال ۲ لاکھ عورتوں کے خلاف جنسی دست درازی کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور زنا بالجبرکے ۱۰۰ معاملات میں صرف ۴۶ ہی رپورٹ ہوتے ہیں اور ۱۰۰ میں صرف ۳ ملزم جیل جا پاتے ہیں ۔ ہندوستان میں ۲۰۱۰ ء اور ۲۰۱۱ ء کے دوران ۲۲۸۶۵۰ عورتوں کے ساتھ جنسی جرائم کے واقعات ریکارڈ کئے گئے اور یہاں ہر منٹ میں زنابالجبر کا ایک واقعہ پیش آ تا ہے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ حقوق نسواں کے نعروں کو بلند کر کے عورت کی عزت و عصمت کو کس طرح تار تار کیا جارہا ہے اور کس طرح نسوانیت کے نرم نازک آبگینوں کو سر راہ توڑا جارہاہے ۔ اصل یہ ہے کہ واحد اسلام ہی حقوقِ نسواں کا ضامن ہے، چونکہ یہ دین ایک مکمل نظام حیات ہے ۔ اس میں جہاں سیاسی ، سماجی،تعلیمی اور معاشی رہنمائی ہے ،وہیں یہ خاندان کے نظم و نسق ،عورتوں کے حقوق اور ان کی عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے ایک موثر لائحہ عمل اورشاہکار نظام سے آشنا کراتا ہے ۔ اسلام ہی وہ دین ِخداوندی ہے جس نے عورتوں کو اپنے صحیح مقام اومر تبہ اور ان کی اصل حیثیت کو سماج میں نہ صرف متعارف کرایا بلکہ اس کے چاروں اطراف تقدس کی سرحد کھڑی کر دی جس کے اندر ہر ماں بہن بیٹی محفوظ بھی ہے اور تمام بلاؤں سے آزاد بھی ہے ، وہ جنت کمانے کی شاہ کلید ہی نہیں بلکہ اگر اس کے حقوق اور تقدس کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے تو یہ گناہِ عظیم ایک آدمی کو دوزخ کی آگ تک کھینچ سکتا ہے اور اس کی عصمت یا عزت سے دست درازی کر نے والا جرم ثابت ہونے کی صورت مین اسلامی شرعی عدالتی ایوان سے سُولی اور سنگساری کی سز ا پاسکتا ہے ۔ اسلام کی نگاہ میں عورت حقوق کے معاملے میں مردوں کے مساوی ہے اور فطری تقاضوں کی بنیاد پر تفریق کے سوا دونوں میں درجے ، اہمیت اور عزت کے تعلق سے کوئی ادنیٰ سا امتیاز بھی نہیں ۔اسلام نے عورت کو اپنے ہر شعبہ ٔ زندگی میںعزت و تکریم سے نوازا ہے ۔ خالق کائنات نے عورت پر فطری طور پر یہ ذمہ داری عائد کر دی ہے کہ کہ وہ تدبیر منزل ، خانگی قیادت اور اولاد کی مناسب تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ کرے اور ان میں ایمان داری، راست گوئی اور بہادری کے جوہر پیدا کرے تاکہ ایک صحت مند سماج وجود میں آئے، کیوںکہ گھر ہی سماج کی سب سے اہم اور بنیادی اکائی ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح و سالم ہوا اور اخلاقی حدود میں بسے تو معاشرہ خود بخود حسن عمل اور اخلاق و کردار کا پیکر بن جائے گا ۔ اسلام نے عورتوں کے تعلق سے ہر معاملے میں واضح ہدایات عطا فرمائی ہیں ۔ اسی دین نے عورت کو سب کے سب تہذیبی ، معاشی ، تعلیمی اور معاشرتی حقوق عطا کئے ہیں ۔ اس نے مردوں اور عورتوں پر وہ تمام احسانات کئے ہیں جن کی بدولت گھر گرہستی کی گاڑی میں ہم رتبہ اور ہم وزن پہیوں کی صورت میں یہ ا یک ایسے اطمینان بخش ا ور فرحت رساں سفرِ حیات پر نکلے جس کی منزل دنیاکا حسنہ اور آخرت کا حسنہ ہے کہ اس کی نظیر کسی بھی نظریہ ، تہذیب اور مذہب میں نہیں ملتی ۔ اسلام نے عورتوںکے حقوق وفرائض تا قیام قیامت متعین کئے ہیں جواس کے تشخص کو بلندی بخشتے ہیں ،اس کو ملک وملت اور قوم و معاشرے کے لئے مرد کا معاون، مددگار اور مشیر بنا دیتے ہیں ۔ آج جب کہ دنیا بھر میں حقوق ِ نسواں کی دہائیاں دی جارہی ہیں ، اگر واقعی اہل عالم چاہتے ہیں کہ صنف نازک کو اپنا کھویا ہو امقام و منزلت ملے تو اسے اسلام کی طرف مراجعت کر نا ہوگی اور بس۔