بالکونی سے جھانکتی اداس نظم
تمہیں معلوم ہے لیکن پھر بھی
یاد دلاتا ہوں موسم بدلنے سے پہلے۔۔۔کہ
محبت ہماری مشترکہ اداس نظم ہے
جسے ہم دونوں
سال بھر آہوں سے بنتے رہتے ہیں
سال بھر ہچکیوں پہ گنگناتے رہتے ہیں
اداس نظم پہ ہم ہر سال
آنے والی خوشیاں قربان کرتے ہیں
محبت کی بقا کےلیئے
عشق کی رسوائی کے لیئے
حسن کی ماندگی کے لیئے
لفظ چنتے رہتے ہیں
ہجر کے کھلیانوں سے
وصل کے سرابوں میں
آنے والی اداس نظم کے لئے۔۔۔۔!!!!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
قطعات
ہر چھوٹے چھوٹے لمحوں میں جینا ہے زندگی
ہر اِک کھری سی بات کو سہنا ہے زندگی
ہر لب پہ ہو مُسکان تو ہر چہرہ شگفتہ
ہر کام وقت وقت پر کرنا ہے زندگی
یہ اٹکھیلی، یہ اِغمازِ بہارِ بوستاں باقی
یہ سانسوں کی کھنک باقی، ابھی کچھ شوخیاں باقی
بلاسے بجلیاں از حد شرارت کر گئیں لیکن
ابھی اُڑتے گئے پنچھی، ابھی کچھ آشیاں باقی
لوگ کہتے ہیں کہ چہرہ ہے دِل کی کتاب
جو رنگ اُبھرتے ہیں رکھتا ہے ان کا حساب
کتنی عجیب ہے رنگا رنگ جذبات کی دُنیا
کوئی پردہ قبول ہوتا ہے نہ کوئی حجاب
گیسوئے مسائل ابھی پیچیدہ و پُرخم
ہے شانۂ تدبیر گُم اب تک یہی ہے غم
کیسے کٹیں گے ہائے یہ ایامِ زندگی
کس راہ میں شمع لئے ڈھونڈیں خضر کو ہم
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
موجِ بہار
قابل توصیف ہیں ساون کے یہ لیل و نہار
باعثِ برسات ہے کیا پھر ہر طرفِ موجِ بہار
دیر سے بیٹھے ہوئے دہقان تھے نالہ بلب
دیکھکر اب شادماں ہیں ماہِ ساون کی پھوار
ہُو کا عالم چھا گیا تھا کھیت اور کھلیان میں
زرد رُو مکی کے پودے اور تھی سُوکھی جوار
قابلِ برداشت مطلق تھی نہ سورج کی رمق
تھے مکینِ شہر گائوں مائیل چیخ و پکار
پھر درِ معبد ہی جاکر سربہ سجدہ خلق تھی
ایک ہی نالہ تھا لب پہ ہائے یہ موسم کی مار
دیکھکر خالق نے آخر یہ سلسلہ ہائے بیکراں
بھیج دی بارش کی نعمت پھر زمیں پہ بے شمار
چند روزہ بارشوں کی اِک عنایت کے سبب
کیا زمینِ خُشک و ویراں ہوگئی پھر لالہ زار!
خستہ رُو چہروں پہ پھر سے چھا گیا راحت کا نُور
دیکھکر ساون کی بوندوں کی یہ موجِ قطار
ہم نے جو دیکھا ہے آذرؔ ہے وہی منظر رقم
ورنہ ہوتے پیشِ خدمت اور منظر بےشمار
بابتِ عُشاقؔ لیکن ہے یہ موسم پُرعذاب
وقتِ پیری مرضِ ’’دمہ‘‘ کا میں ہوں بے حد شکار
جگدیش راج، عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
مکیں بدل گئے
اے معصوم پرندے
کیوں اتنا شور مچاتے ہو ۔
میں جانتی ہوں آپ بہت دور سے
اس آشیانے کی تلاش میں ہو
جو آپکے ماں بابا کا تھا ۔
آپ اس مکان میں گھر گھر کھیلی ہو ۔
نہ کھڑکیاں بندتھیں نہ دروازے مقفل
اب
اس مکان کے اندر آپکا آشیانہ نہیں ہے۔
حقیقت ہے یہ
یہ مکان وہی ہے
مگر مکین بدل گئے ۔
روحی جان
نوگام سرینگر
نظم
مدت ہوئی ہمیں آپ کے انتظار میں
کب آوگے مہدی رہی ہے آرزو ہر دور میں؟
تڑ پتی ہیں آنکھیں آپ کے ظہور کی خاطر
نجات دکھائی دیتی ہے آپ کے نورانی چہرے میں۔
آنسوؤں ٹپکتے ہیں دعائیں کرتے کرتے
زبانیں بھی تھک چکی ہیں آپ کی پکار میں۔
ظلم وستم بڑھ رہا ہے اس دنیا میں
گونجتی ہے صدا صرف آپ کی ہی اس جہاں میں۔
معصوموں کا لہو بہہ چکا ہے گلی گلی
کب آئے گا اصلی حاکم اس ویرانے میں؟
دشوار ہوچکی ہے زندگی یہاں آپ کے بغیر
بھروسہ ہے ہر فرد کو آپ کے عدل و انصاف میں۔
اک آس کے ہی سہارے میں زندہ ہوں
تیری دید کی خاطر ہوں اس پرآشوب دنیا میں۔
بلال احمد صوفی
خوشی پورہ، ایچ ایم ٹی، سرینگر
موبائل نمبر؛6006012310