عیش و عشرت بڑھانے سے کیا فائدہ؟
فکر انگیز
سبدر شبیر
آج کا انسان ایک ایسی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے جس کا اختتام کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دوڑ ہے زیادہ کمانے کی، زیادہ کھانے کی، زیادہ پہننے کی اور دوسروں سے بڑھ کر جینے کی۔ اس دوڑ میں انسان اپنے دن کا سکون اور رات کی نیند، دونوں قربان کر دیتا ہے۔ وہ عیش و عشرت کو کامیابی سمجھ بیٹھا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے اپنا وقت، صحت، اخلاق، رشتے حتیٰ کہ ایمان تک داؤ پر لگا دیتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی ایک سوال باقی رہتا ہے: ’’عیش و عشرت بڑھانے سے آخر کیا فائدہ؟‘‘
دنیا کی آسائشوں میں اضافہ کرتے کرتے انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اصل خوشی کیا ہے؟ وہ قیمتی گاڑی خرید کر خوش ہوتا ہے، مگر جب دوسرا اس سے بہتر گاڑی لے لے، تو اس کی خوشی حسد میں بدل جاتی ہے۔ وہ عالی شان گھر بناتا ہے، لیکن پھر کسی اور کا محل دیکھ کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والی خواہشات انسان کو کبھی قرار نہیں لینے دیتیں۔ ہر نئی چیز کے بعد ایک اور ’’نئی‘‘ چیز کی طلب پیدا ہو جاتی ہے، جو اسے ہمہ وقت بے سکون رکھتی ہے۔
عیش و عشرت کی چاہ انسان کو پہلے جسمانی تھکن میں مبتلا کرتی ہے، پھر ذہنی دباؤ میں اور آخر کار روحانی خلا میں دھکیل دیتی ہے۔ جو وقت وہ اپنے رب کی یاد، والدین کی خدمت، اولاد کی تربیت، یا کسی ضرورت مند کی مدد میں لگا سکتا تھا، وہ اسی وقت کو قیمتی چیزوں کی خریداری، سوشل میڈیا پر نمائش، اور دوسروں کو نیچا دکھانے میں ضائع کر دیتا ہے۔
اسلام نے عیش و عشرت سے نہیں بلکہ اس کی زیادتی اور اسراف سے روکا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’کھاؤ، پیو، لیکن اسراف نہ کرو، بیشک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الاعراف: 31)۔ یہی اعتدال پسندی دین اسلام کا حسن ہے۔ نبی کریم ؐ کے گھر مہینوں چولہا نہیں جلتا تھا، لیکن وہ دنیا کے سب سے مطمئن انسان تھے۔ ان کے دل میں اللہ کا نور، زبان پر ذکر، اور عمل میں عاجزی تھی۔ کیا آج کے عیش پرست انسان میں یہ تینوں صفات پائی جاتی ہیں؟
آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے پاس سب کچھ ہے، وہ بھی کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کوئی ڈپریشن کا شکار ہے، کوئی تنہائی کا۔ کوئی نشہ کرتا ہے، کوئی نیند کی گولیوں پر زندہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عیش و عشرت خوشی کی ضمانت نہیں ہے۔ خوشی ایک اندرونی کیفیت ہے جو قناعت، سادگی اور اللہ کی رضا سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ قیمتی چیزوں سے۔
کبھی کسی قبرستان جا کر دیکھیں، وہاں کوئی قبر اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ یہاں فلاں شخص عالی شان گھر میں رہتا تھا یا لاکھوں کی گاڑی چلاتا تھا۔ سب مٹی میں برابر ہو جاتے ہیں۔ جو چیز باقی رہتی ہے وہ اعمال ہیں ،اچھے یا بُرے۔ تو کیا وہ انسان عقلمند ہے جو عارضی چیزوں کی خاطر ابدی کامیابی کو خطرے میں ڈال دے؟
ایک بار حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی بیٹی نے ان سے کہا کہ ابّا جان، ہمارے پاس تو پہننے کو بھی اچھا لباس نہیں ہے، گھر میں فرش ہے نہ روشنی۔ تو انہوں نے جواب دیا: ’’بیٹی! اگر تم جان لو کہ قیامت کے دن تمہارا باپ بخشا گیا تو یہی تمہارے لیے سب سے بڑی عیش و عشرت ہوگی۔‘‘یہ جواب آج کے ہر باپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اپنی اولاد کو دنیا کی ہر نعمت دینا چاہتا ہے، مگر ان کے دین، اخلاق اور کردار کی فکر نہیں کرتا۔ بچوں کو موبائل، ویڈیو گیمز، برانڈڈ کپڑے تو دے دیتا ہے، لیکن ان کے ہاتھ میں قرآن نہیں دیتا۔ انہیں انگلش سکھاتا ہے، مگر دین کا بنیادی علم نہیں دیتا۔ کیا یہ عیش و عشرت ان کے لیے آخرت کی روشنی بن سکے گی؟
عیش و عشرت میں اضافہ انسان کو خودغرض بھی بنا دیتا ہے۔ وہ صرف اپنی آسائشوں کا سوچتا ہے، دوسرے کی بھوک، غربت، تکلیف اسے نظر نہیں آتی۔ اس کا دل سخت ہو جاتا ہے، اور زبان سے شکر کم اور شکوے زیادہ نکلتے ہیں۔ وہ ناشکرا ہو جاتا ہے، اور ناشکری ایمان کے زوال کا سبب بنتی ہے۔یہ سب جاننے کے باوجود انسان کیوں عیش پرستی کا شکار ہو جاتا ہے؟ اس کی وجہ نفس کی پیاس ہے جو کبھی بجھتی نہیں۔ نفس چاہتا ہے کہ انسان ساری دنیا کو اپنے قدموں میں جھکا دے۔ لیکن جو انسان نفس کو قابو میں رکھتا ہے، وہی اصل میں کامیاب ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا، وہی کامیاب ہوا۔‘‘(الشمس: 9)ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں۔ روزانہ تھوڑا سا وقت خود سے سوال کرنے میں گزاریں:کیا میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے جی رہا ہوں یا دنیا کو خوش کرنے کے لیے؟کیا میری کمائی میں حلال و حرام کی تمیز ہے؟کیا میرے دل میں غریب کے لیے جگہ ہے؟کیا میں عیش و عشرت کی دوڑ میں اپنی آخرت کو بھول چکا ہوں؟یہ سوالات شاید ہمیں جھنجھوڑ دیں، شاید ہماری ترجیحات بدل جائیں، شاید ہم سادگی کی طرف لوٹ آئیں۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ عیش و عشرت نہ تو قبر میں کام آتی ہے، نہ میدانِ حشر میں، نہ اللہ کے سامنے پیشی کے وقت۔
اصل عیش وہ ہے جو دل میں سکون پیدا کرے، اور وہ صرف اللہ کی رضا میں ہے۔ اصل دولت وہ ہے جو قیامت کے دن ہمارے ساتھ ہو، اور وہ صرف نیک اعمال ہیں۔
تو آئیے، آج یہ عہد کریں کہ ہم ظاہری چمک دمک کے دھوکے میں نہ آئیں گے۔ ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھیں گے، دوسروں کی مدد کریں گےاور اپنی زندگی کو عیش پرستی سے نکال کر عبادت، خدمت اور سادگی کی طرف موڑیں گے۔ کیونکہ آخر میں یہی طرزِ زندگی ہمیں کامیاب بنا سکتا ہے۔
[email protected]