رائگانی
سو گیا دن، دھوپ ژھوتے ڈھوتے
تکان اوڑھ کے
شام کی دہلیز پر۔۔۔
خواب بننے لگی ہے رات
چاندنی بچھاکر
جاگتی آنکھوں کے لئے۔۔۔۔۔۔
ستارے نیلگوں کے پیراہن پہ اچھلتے کودتے
خاموش لمحوں میں سانسیں بھر رہے ہیں
میرے حصے کی زمین
ترا آسماں بانہوں میں لئے جارہی ہے
خلا کی رائگانی کو
محبت کی سانسوں سے بھر کر
فاصلے مسل مسل کے۔۔۔۔
کائنات کو محبت کے دائرے میں لانا ہے
ایک نقطے پہ رکھنا ہے
پوہ پھٹنے تک
ہجر کی ان گنت تاریکیاں
وصل کی چنگاریوں سے روشن رکھنی ہیں۔۔
سجدے اتر رہے ہیں
جبین کی سیڑھیوں سے
دل کی عبادت گاہ میں۔۔۔۔۔
آرزؤں کی سماعتیں انتظار میں ہیں
تری آہٹوں کے۔۔۔۔
دھڑکنوں پہ اذان گونجے گی
امیدوں کا سورج پھر سے سفر باندھے گا
محبت کی کائنات میں سرگوشیاں
چہچہانے لگیں گی
ہمارے سائے
ایک دوسرے کو تلاشنے نکلیں گے
ایک دوسرے میں کھونے کے لئے۔۔۔!!!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
نوشتۂ حیات
ہے داستانِ سوزِ ’’اردو‘‘ دل اور جگر میں دیکھنا
کر رہا ہے تبلیغ اِس کی یہ خُشک و تر میں دیکھنا
خدمتِ اُردو ادب میں اس نے کیں نیندیں حرام
ہے داغؔ و حالیؔ کا تصور اِسکی نظر میں دیکھنا
عالمِ تیرہ شبی کا گرچہ ہے مارا مُدام
پھر بھی ہے شکوہ نہیں کچھ آہِ سحر میں دیکھنا
ہے شکارِ برقِ تعصب ہندؔ میں اُردو زبان
ہے مگر جاوید اب تک یہ اِسکے گھر میں دیکھنا
ایک تھا اُردو کی خاطر یہ صورتِ در یوزہ گر
پھر رہا ہے گائوں گائوں اور نگر میں دیکھنا
یہ عاشقِ اُردو ہے اَزلناً اِس کا یہ کردار ہے
ہے زبان چھائی ہوئی کیا اِسکے سر میں دیکھنا
کُند سرپیکر ہے لیکن ہے سیرتاً داعی زبان
کررہا ہے نسل نو کو اِس سے باور دیکھنا
سلف سے اسکو ملا ہے درس ہائے ریختہؔ
بول اسکے اِس سبب ہیں ڈوبے عطر میں دیکھنا
یہ متاعِ شاعری اسکو ملی بھائی سے تھی
شعر اکثر وہ کہا کرتے تھے گھر میں دیکھنا
بعد اسکے حضرت نشاطؔ نے ڈھالا اِسے
پر صحبتِ آزادؔ و منشاؔ کے اثر میں دیکھنا
سنہ باسٹھ تا ستتھر سرحدوں کا نگہبان
بعدِ مدت لوٹ آیا پھر اپنے گھر میں دیکھنا
دورانِ جنگ اسکو ملی تصنیف ’’یادوں کی بارات‘‘
ہے اسکی ہی تقلید اسکے فکر و نظر میں دیکھنا
اسکے پڑھنے سے ملا اسکو یہ درسِ لامثال
خلق کو اے دوست دلِ سے اِک نظر میں دیکھنا
بعدِ مُردن سنگِ سلِ پہ نقش یہ ہوگا ضرور
لے گیا عُشاق اُردو رختِ سفر میں دیکھنا
عُشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ چناب ویلی کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
نظم
کیا بارش، کیا بہار، کیا دھوپ، کیا برف
ہمیں کیا کرے گا موسموں کا بدلنا؟
دل کے داغوں سے نہ ہو کوئی روشنی پیدا
ہمیں تو ہر رنگ میں خزاں ہی دِکھتا ہے۔
کہیں چمن میں خوشبو، کہیں پھولوں کا رقص
کہیں پرندوں کا شور، کہیں جھیلوں کا عکس
مگر یہ دل کا موسم، جمود میں قید ہے
ہمیں تو ہر صورت، یہاں خزاں ہی دِکھتا ہے۔
تمہارے آنے سے شاید بہار لوٹ آئے
تمہارے لمس سے دل کا قرار لوٹ آئے
مگر یہ حسرتیں بھی فقط خواب بن گئیں
کہ ہمیں تو ہر خواب میں خزاں ہی دِکھتا ہے۔
رئیس یاسین
پدگام پورہ اونتی پورہ
[email protected]>