دل کی گہرائی میں درد چھپانا ہے
ہم کو گُھٹ گُھٹ کر یونہی مرجانا ہے
رات سلگتی، بھیگا موسم، تنہا ہم
اُس کی یادوں سے دل کو سہلانا ہے
خوشبو اُس کے نام کی تتلی لائی ہے
ویراں گھر کو اس سے اب مہکانا ہے
ہر اک ہاتھ میں پتھر میرے نام کا ہے
آنسو پی کر بھی ہم کو مُسکانا ہے
گونجتی رہتی ہیں کھنڈر میں کچھ چیخیں
کس نے اُن آوازوں کو پہچانا ہے
برسوں تنہائی کے صدمے جھیلے ہیں
دو رُوحوں کو برسوں بعد ملانا ہے
رخصت کرکے اُن کو ہم نے دیکھ لیا
آنکھوں میں روکے بادل برسانا ہے
شاید کہ تقدیر میں اُن کا ساتھ نہ تھا
اپنے دل کو خود ہی اب سمجھانا ہے
شاید میرے پیر میں کوئی چکر ہے
سات سمندر پار مجھے اب جانا ہے
دھرتی پر تو سارے دعویٰ کرتے ہیں
چٹانوں میں ہم کو پھول کھلانا ہے
آسمان کی جانب اُڑنے والو تم
مُڑ کر دیکھو پیچھے ایک زمانہ ہے
نسلِ نو نے عہد کیا ہے یہ مانوسؔ
پُرکھوں کی جائیداد کو بیچ کے کھانا ہے
پرویز مانوس ؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر،9419463487
تری نظروں میں آنا چاہتا ہوں
میں یہ اعزاز پانا چاہتا ہوں
مری ہمّت ابھی ٹوٹی نہیں ہے
میں دھوکہ اور کھانا چاہتا ہوں
بری لگتی ہے میری بات تم کو!
تمہیں آگے بڑھانا چاہتا ہوں
یہ دنگے کون کرواتا ہے چُھپ کر ؟
میں یہ نکتہ اٹھانا چاہتا ہوں
نہیں ہے پھوٹی کوڑی تک مرے پاس
ستارے گھر بھی لانا چاہتا ہوں
یہی اک آخری خواہش ہے میری
“میں تم کو یاد آنا چاہتا ہوں”
سنا ہے فیضؔ تم پینے لگے ہو!
میں یہ افواہ اڑانا چاہتا ہوں
فیض الامین فیض
کلٹی بردوان ،مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8972769994
زمانہ ہوا لڑکھڑاتے ہوئے
بہکتے پھسلتے سنبھلتے ہوئے
بچھے ہیں یہاں کانٹے ہر اک طرف
“ذرا پاؤں رکھنا سنبھلتے ہوئے”
ہوا یوں کہ پھر بُجھ گیا وہ دِیا
جلایا تھا جو شام ڈھلتے ہوئے
محبت فقط نام اَب رہ گیا
میں نے دیکھا خود کو بدلتے ہوئے
رکھا تھا جنہیں پاسباں باغ کا
انہیں دیکھا کل گُل مسلتے ہوئے
کئی دن سے اِندرؔ کو دیکھا نہیں
کہیں لڑکھڑاتے پھسلتے ہوئے
اِندرؔ سرازی
پرشولہ، ضلع ڈوڈہ، جموں
آسماں کہہ نہ سکا، خواب حقیقت سے پرے
چاند سنتا ہی نہ تھا، بات محبت سے پرے
پھول ہنستے تھے مگر شاخ پہ کھلتے نہ کبھی
رنگ آتے ہی نہیں، عمر کی شدت سے پرے
آئینہ چپ تھا مگر عکس میں قصے تھے کئی
کیا چراغوں نے دکھایا تھا بصارت سے پرے؟
زندگی ڈھونڈ رہی تھی کسی دہلیز کا نام
پر گزرنا تھا اسے اپنی عقیدت سے پرے
دھوپ ٹھہری تو ہوا چھونے لگی شام کا دل
ہم گئے دیکھنے منظر تری قربت سے پرے
ریت میں دفن تھا ماضی کا کوئی قصہ جسے
ہم نے کھوجا تھا سمندر میں ضرورت سے پرے
محسنؔ کشمیری
دبئی، متحدہ عرب امارات
موبائل نمبر؛00971582784537
دل تھا مسحور اس کے جادو سے
انگلیاں کاٹ لی ہیں چاقو سے
زخم دیتے ہیں مسکرا کر لوگ
کہیں مرہم لگا ہے چاقو سے؟
کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے
سب کا دامن جو تر ہے آنسو سے
گل سے بلبل نے یہ کہا شاید
ہوش اڑنے لگے ہیں خوشبو سے
زخم گہرا جگرکا کتنا ہے
پوچھ جاکر اسی کے بازو سے
دل پہ اتنا غرور مت کرنا
کب نکل جائے تیرے قابو سے
چھپ گئے چاند،تارے بادل میں
روشنی مل رہی ہے جگنو سے
جبیںؔ نازاں
لکشمی نگر، نئی دلی
اک بار پھر سے عشق کی داستاں لکھی جائے گی
اس بار کی یہ عاشقی منزل ضرور پائے گی
میری آنکھوں سے جو یہ لہو کے کترے گرے
اُسی سے میرے اُجڑے چمن میں بہار آئے گی
میں اس بار خود کو پہچان لے لوں گاضرور
رقیبوں کے ہر وار سے اب میری تلوار ٹکرائے گی
جھوٹ کی سیاہی اب رنگ نہیں لائے گی
خود کے ہی لہو سے اب سچائی لکھی جائے گی
راشدؔ تُو جذبۂ عشق کو دل میں جلا کے رکھ
تیری اک نظر پھر یہ ساری دیواریں گرائے گی
راشدؔ اشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105