عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے پیر کے روز (13 اکتوبر) 25 کتابوں کی ضبطی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر عبوری ریلیف دینے سے انکار کر دیا۔ یہ کتابیں سیکشن 98 بی این ایس کے تحت مبینہ طور پر علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے الزام میں ضبط کی گئی تھیں۔چیف جسٹس ارون پالی، جسٹس راجنییش اوسوَل اور جسٹس شہزاد عظیم پر مشتمل تین ججوں کی خصوصی بنچ نے اگرچہ عبوری ریلیف دینے سے انکار کیا، لیکن ان عرضیوں پر نوٹس جاری کیا۔
تاہم عدالت نے اس معاملے پر دائر ایک عوامی مفاد کی عرضی (PIL) پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کیا، یہ کہتے ہوئے کہ “یہ معاملہ عوامی مفاد میں نہیں ہےاور 90 فیصد لوگ اس مسئلے کو سمجھ نہیں پائیں گے۔یہ عرضیاں اُس نوٹیفکیشن کو چیلنج کرتی ہیں جو 5 اگست کو مرکزی زیر انتظام خطے کی حکومت نے جاری کیا تھا، جس میں کشمیر کی سیاسی و سماجی تاریخ پر مبنی 25 کتابوں کو سیکشن 98 بی این ایس ایس کے تحت ضبط قرار دیا گیا تھا۔
سیکشن 98 کے تحت ریاستی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ بعض اشاعتوں کو ضبط قرار دے اور ان کی تلاشی کے وارنٹ جاری کرے۔سرکاری گزٹ میں شائع نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ یہ کتابیں جھوٹے بیانیے اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی وجہ سے ضبط کی گئی ہیں۔یہ عرضیاں ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک، مصنف ڈاکٹر سمنترہ بوس، امن اسکالر ڈاکٹر رادھا کمار، اور سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ کی جانب سے سیکشن 99 اور سیکشن 528 بی این ایس ایس کے تحت دائر کی گئی تھیں۔عرضی گزاروں کا موقف ہے کہ محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ضبطی کا حکم من مانا، غیر واضح اور غیر معقول ہے، جو سیکشن 98 کی قانونی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن میں کتابوں کے کسی مخصوص حصے کی نشاندہی نہیں کی گئی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ وہ علیحدگی پسند بیانیے کو فروغ دیتی ہیں، اور نہ ہی ضبطی کے لیے کوئی معقول وجوہات فراہم کی گئی ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے محض قانونی دفعات نقل کی ہیں، بغیر کسی ایسے حقائق یا اقتباسات کے جن سے خلاف ورزی ثابت ہو۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے ’نارائن داس اندوراکھیا بنام ریاست مدھیہ پردیش (1972)کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ قانونی دفعات کو بغیر وجوہات کے دہرانا ایک موزوں حکم نہیں سمجھا جا سکتا۔
مزید یہ کہ حکومت کی ’’رائے‘‘اور اس کے ’’بنیادی اسباب‘‘میں فرق ہونا لازمی ہے، اور اسباب کا حکم میں واضح ہونا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہرنام داس بنام ریاست اتر پردیش اور ارون رنجن چودھری بنام ریاست مغربی بنگال جیسے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا، جن میں کہا گیا کہ ضبطی کی بنیاد اشاعت کے ’’اثر، رجحان یا مفہوم‘‘سے متعلق ہونی چاہیے، جسے اقتباسات یا مواد کے تجزیے سے ظاہر کیا جائے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ جھوٹے بیانیے اور علیحدگی پسند لٹریچر کے منظم پھیلاؤنے جموں و کشمیر میں نوجوانوں کی انتہا پسندی میں کردار ادا کیا ہے، جس میں دہشت گردی کی تعریف، سیکیورٹی فورسز کی بدنامی، تاریخی حقائق کی مسخ کاری اور اجنبیت کو فروغ دینا شامل ہے۔
حکومت نے ان کتابوں کو ضبط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ علیحدگی پسندی کو ابھارتی ہیں اور بھارت کی خودمختاری و سالمیت کو خطرے میں ڈالتی ہیں،اس طرح وہ بھارتیہ نیایا سنہِتا 2023 (BNS) کی دفعات 152، 196 اور 197 کے تحت آتی ہیں۔ان 25 کتابوں کی فہرست میں سمنترہ بوس، اے جی نورانی، اروندھتی رائے، سیمہ قاضی ، حفصہ کنجوال، اور وکٹوریا سچوفیلڈ جیسے مصنفین کی کتابیں شامل ہیں، جنہیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس، اور راؤٹلیج جیسے معروف تعلیمی اداروں نے شائع کیا ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ کاعلیحدگی پسندی کو فروغ دینے کے الزام میں 25 کتابوں کی ضبطی کے خلاف عبوری ریلیف دینے سے انکار ، نوٹس جاری
