21 مئی کی دحشت زدگی نے جہاں 1990ء میںبرصغیر ہند و پاک کی فلک شگاف بلندیوں پہ ہمالیہ کی گود میں واقع وادی کشمیر میںمیر واعظ خاندان کے چشم و چراغ اور اُس زمانے کے میر واعظ کشمیر مولانا محمد فاروق کی شمع حیات کو ہمیشہ کیلئے گولیوں کی بوچھاڑ میں خاموش کیا، وہی ایک ہی سال کے بعد 21 مئی 1991ء کے دن خون آشامی کی ایک اور واردات میں بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا ایک دحشت انگیز بم دھماکے میں جنوبی ہندوستان میں ساحل سمندر کے قریب و جوار میں سیاسی قتل کیا گیا ۔مولانا فاروق اور راجیو گاندھی دونوں ہی جوانی کی دہلیز کو پار کر کے درمیانہ عمر کی سرحدوں کو چھو رہے تھے جہاں اُن سے توقعات وابستہ ہو چکی تھیں کہ شاید دور شباب میں اگر اُن سے نا دانستہ سیاسی لغز شیں کہیں یا غلطیاں ہو بھی چکی ہوں تو اُنہیں وہ سنوارنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک و قوم کی بہتر رہنمائی کر سکیںلیکن ہونی ہو کے رہ گئی اور دونوں ہی دحشت زدگی کا شکار ہو کر حیاتِ مستعار کی سرحد پھلانگ کر اوپر کی دنیا کو پہنچے۔ مولانا فاروق کے جان بحق ہونے کے کوئی ایک دَ ہے کے بعدعبدالغنی لون عید گاہ سرینگر میںمولانا فاروق کی برسی پہ ایک پُر ہجوم جلسے میں تقریر سے فارغ ہو کے عید گاہ سے نکل ہی رہے تھے کہ وہ بھی گولیوں کی بو چھاڑ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ بیٹھے ۔یہ شاید کہنے کی ضرورت نہیں کہ اتفاقاً اُس دن بھی تاریخ 21 مئی ہی تھی ۔
تین مختلف سیاسی قتل تین مختلف مقامات پہ ایک ہی تاریخ میں صرف سن وسال کے فرق کے ساتھ یہ سوال ضرور اُبھارتے ہیں کہ کیا کوئی پہلو کوئی بات ایسی تھی جو اِن میں مشترک ہو ؟ مولانا محمد فاروق کے واصل بہ حق ہونے پس منظر میں ہمیں برصغیر میں پچھلی چھ دہائیوں میں جو تاریخی واقعات و حادثات پیش آئے اُنہیں جانچنا اور پرکھنا و گا۔ بر صغیر کی ماضی قریب کی تاریخ سے ہمیں یہی شہادت ملتی ہے کہ سیاسی شخصیتوں کا قتل کے پس منظر میں وہ مسائل ہیں جو لائنحل رہ گئے اور اِن مسائل میں مسلٔہ کشمیر سر فہرست ہے جو نہ صرف میر واعظ مولانا محمد فاروق کی دائمی مفارقت کا سبب بنا بلکہ عبدالغنی لون بھی اِسی مسلے کے لائنحل رہنے کے سبب اپنی جان عزیز گنوا بیٹھے اور تو اور یہی مسلٔہ آج تک کم و بیش ایک لاکھ کشمیریوں کی زیاں جان کا سبب بنا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ دیکھا جائے تو راجیو گاندھی بھی سری لنکا میں تامل مسلے کا کوئی قابل قبول حل پیش نہ آنے کے سبب تامل جنگجوؤں کے قاتلانہ حملے کا شکار ہوئے۔ جہاں اور بھارتی رہنما مسلٔہ کشمیر کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے کا سبب بنے اُن میں اتفاقاََ راجیو گاندھی بھی شامل تھے۔
راجیو گاندھی جب وفات نا گہانی سے کچھ عرصہ پہلے اُس زمانے کے نائب وزیر اعظم چودہری دیوی لال کی سر براہی میں پارلیمانی کمیشن کے ہمراہ کشمیر آئے تو ایک آگ وادی کے طول و عرض میں پھیل چکی تھی۔ امن پسند کشمیریوں نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بندوق اٹھا لی تھی اور جب اِس پارلیمانی وفد سے ہوٹل کے ملازموں کے علاوہ کسی نے بات تک نہیں کہ تو بقول راوی راجیو کو فاروق عبداللہ کے ساتھ اپنے کئے ہوئے سیاسی سمجھوتے جسے ایکارڑ کی اصطلاح سے پکارتے ہیں ،کا کھوکھلا پن نظر آیا۔اِس ایکارڑ کے بعد فاروق عبداللہ نے وہ کھوئی ہوئی کرسی واپس پائی جو دہلی سرکار کی ایجنسیوں نے اُن سے چھین کے اُن کے برادر نسبتی غلام محمد شاہ کی مسند نشینی کیلئے خالی کی تھی۔دہلی سرکار کیلئے یہ مسند نشینیاں ایک معمول بن چکی تھیں جہاں شیخ محمد عبداللہ کے بجائے بخشی غلام محمد اور اُن کے بجائے غلام محمد صادق پھر اُن کے بجائے سید میر قاسم کے لئے کرسی خالی کرواناایجنسیوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا تھا۔
اندرا شیخ ایکارڑ کے بعد شیخ محمد عبداللہ کی دوبارہ مسند نشینی ہوئی۔ایک انوکھی مسند نشینی جو کہ اُس کھوکھلی جمہوریت کی علامت تھی جو دہلی سرکار نے یہاں قائم کی ہوئی تھی۔شیخ محمد عبداللہ اقتدارکا خواب دیکھتے دیکھتے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ اسمبلی میں اُن کی جماعت کا ایک ممبر بھی نہیں تھا ۔نہ صرف وزارت عظمی سے انکار ہوا بلکہ اُن سے یہ بھی کہا گیا کہ گھڑی کی سوئیاں واپس نہیں پھیریں جا سکتی ہیں یعنی 1953 کے زمانے کی تاجداری واپس ملنے کا توسوال ہی نہیںبلکہ اقتدار بھی دہلی سرکار کے من پسندوں کی شراکت سے ہی مل سکتا ہے۔یہی بات فاروق عبداللہ کو بھی کہی گئی۔دہلی سرکار کی اِن قلا بازیوں نے کشمیر میں مقاومتی تحریک کو جنم دیا جس کی سربراہی 1953ء کے بعد شیخ محمد عبداللہ کے نصیب میں آئی لیکن دہلی سرکار کے ساتھ 1975ء میں تجدید عقد کے بعد شیخ محمد عبداللہ ایک برگذیدہ منصب کھو بیٹھے اور اُن کے ہاتھ وہی کرسی آئی جس کے پایے دہلی کی ایجنسیاں کی ساخت ہوتی ہے۔ مقاومتی تحریک کو البتہ نئے رہبر ملے جن میں سر فہرست مولانا فاروق رہے جن کی منصبی ذمہ واریوں میں میر واعظی کے مقام ومنصب اعلیٰ کے علاوہ سیاسی رہبری کا شمار بھی ہوتا ہے۔
کشمیر میں یہ روایت عام ہے کہ مولانا فاروق کو کرکٹ کے میدانوں سے میر واعظی کی مسند تک موئے رسول پاکؐ کے پراسرا سرقہ کے دوران لایا گیا اور ایک روایت کے مطابق مولانا محمد سعید مسعودی نے اُنہیں ایکشن کمیٹی کی صدارت اِس لئے عطا کی تاکہ شیخ محمد عبداللہ کی ہمہ گیر قیادت پہ ایک روک بنی رہی لیکن سچ تو یہ ہے شاید اِس کمیٹی کی صدارت کیلئے مقام میر واعظی سے موزوں تر کوئی اور مقام نہ تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ بخشی غلام محمد نے میر واعظ منزل کے بند دروازے اُسی غرض سے کھولے جس غرض کو مولانا مسعودی نے مد نظر رکھا تھا۔میر واعظ منزل کے دروازے شیخ محمد عبداللہ کی وزارت عظمیٰ کے دوران بند ہوئے تھے۔کشمیر کا پرانے سیاسی لیڈروں کے جو بھی مقاصد رہے ہوں سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کے نو خیز سیاسی لیڈر میر واعظ مولانا محمد فاروق بہت جلد اپنی راہ اپ چلنے کے قابل ہوئے اوراُنہیں کسی کی سر پرستی کی ضرورت ہی نہیں رہی اور اگر کسی کواُن کی سر پرستی کی تمنا رہی بھی ہو تو اُن کے خواب ادھورے ہی رہے ہونگے۔ مولانا محمد فاروق بہت جلد سیاست کے نشیب و فراز سے آگاہ ہو گئے اور اُنہوں نے اپنا ایک منفرد مقام بنا لیا۔میر واعظی کے برگزیدہ مقام کے ساتھ ساتھ اُنہیں اپنی نو زائیدہ سیاسی جماعت عوامی ایکشن کمیٹی کی سر براہی بھی سنبھالنی پڑی اور اس جماعت کے ساتھ میر واعظ خاندان کے لاکھوں عقیدت مند جڑ گئے۔
مولانا فاروق کو میں نے ذاتی طور پہ اُس دن سے جانا جب میری شادی ہوئی تھی۔میر ے والد نسبتی شہر خاص کے ایک معروف تاجر مرحوم شیخ غلام قادر کا خاندان پشت در پشت میر واعظ خاندان کا معتقد رہا اور آج بھی عقیدت کا عالم اُسی ذوق و شوق سے طاری ہے جو اُنہی کی مانند شہر خاص کے متعدد گھرانوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔مجھے حیرت ہوئی کہ جب میں وولہا بنا ہوا اپنے سسرال میں داخل ہوا تو ونہ ون کی صدائیں شہر خاص کے نوہٹہ علاقے کے جبگری پورہ میں ضرور گونج اٹھیں، البتہ یہ اُس صداُس صداکے سامنے ماند پڑھ گئی جب مولانا فاروق میرے اور میری رفیق حیات کے نکاح کی رسم کی صدارت کیلئے تشریف لائے۔وہ میرے سامنے تھے اور مجھے مرحوم شمیم احمد شمیم کے وہ رقم شدہ کلمات یاد آ رہے تھے کہ شکل و شبہاہت میں مولانا فاروق خلافت عباسیہ کے شہزادوں کی مانند ہیں۔یہ سچ ہے کہ تاریخ اسلام میں خلافت عباسیہ کے شہزادوں مثلاََ خلیفہ ہارون رشید و اُن کے فرزند ماموں کی مردانہ وجاہت و شان و شوکت کا کافی ذکر ہوا ہے۔
میر واعظ خاندان کے چشم و چراغ مولانا محمد فاروق گر چہ مسلٔہ کشمیر کے دائمی حل کی ترجمانی کرتے رہے ،البتہ اُنہوں نے اس مسئلے کے دائمی حل کی کوششوں میںاپنے ہم نواؤں کو قانون اساسی کے خود ساختہ سیاسی ایوانوں میں بھی جھانکنے کی اجازت دی لیکن وہاں بھی یہی دیکھنے کو ملا کہ کشمیر حل کی تلاش تو دور کی بات ہے، دہلی سرکار اس بات کے درپے ہے کہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرلے۔1987ء کے اسمبلی الیکشن کے دوران کشمیر میں مقاومتی تحریک سے وابستہ افراد میں سے چند ایک نے جن میں کچھ نوجواں بھی شامل ایک بار پھر قانون اساسی کے خود ساختہ سیاسی ایوانوں میں شمولیت کی کوشش تھی لیکن ان ایوانوں کی ریت بلا مقابلہ ممبراں بن چکی تھی اور جہاں رائے دہندگاں کی وؤٹ گنے بھی جاتے تھے وہاں بھی ہیرا پھیری کی شکایتیں اکثر و بیشتر سننے کو ملتی تھیں ۔چناچہ 1987ء میں شمولیت کرنے والے ریاستی تشدد کا شکار ہوئے اور یہ تشدد ایک جنگجو تحریک کی شروعات کا سبب بنا۔ مولانا محمد فاروق مقاومتی تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے،گرچہ اُن کی رہبری سیاسی دائرے تک محدود رہی ۔تشدد کی بھڑکتی آگ میں انجام کا مولانا محمد فاروق بھی شہدا ء کی صف میں شامل ہوئے، گر چہ تحریک اُن کے نو عمر فرزند مولانا عمر فاروق کی رہبری میں گامزن رہی جو آج بھی مقاومتی تحریک کے بر گذیدہ رہبروں میں شامل ہیں۔
مولانا محمد فاروق کی زندگی کا چراغ جنہوں نے گل کیا اُن کی کوشش یہی رہی ہو گی کہ میر واعظ خاندان کی دینی و سیاسی رہبری کو ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے۔ چونکہ اُن کے جانشین عمر فاروق ابھی سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچے تھے لیکن ایک تو اُن کی اپنی ہمت اور خانوادے کی وجاہت اور اپنے محبوں کی بے پناہ عقیدت کام آئی ،ثانیاََ میر واعظ خاندان کے عقیدتمندوں نے میر واعظی کے مقام کی قدر و منزلت کو کم ہونے نہیں دیا جس کی بہت بڑی وجہ ہے کہ یہ مقام ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور وادی کشمیر میں ایسے ادروں کی جن کا مقام مذہبی بھی ہو اور سیاسی بھی کم ہیں اور جو بھی ہیں اُن میں میر واعظ کشمیر کا مقام ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے اور اس مقام کی افادیت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں میر واعظ رسول شاہ کی قیادت میں میر واعظ خاندان نے کشمیر کا دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ تعلیم کے عالمی نقشے پہ لایا، وہیں میر واعظ یوسف شاہ نے سیاسی رہبری کو میر واعظ خاندان کا شعار بنا لایا اور اس روایت کو میر واعظین مولانا محمد فاروق اور مولانا عمر فاروق نے پروان چڑھا کے میر واعظ خاندان کے تاریخی رول کو فروغ بخشا۔
21 مئی بر صغیر کے حکمرانوں کیلئے مشعل راہ ہونا چاہیے کہ قوموں کے درمیاں تضاد کو صرف یورپین یونین جیسی سیاسی ہم آہنگی سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جہاں پچھلی صدی میں دو عالمی جنگوں کے بعد یورپی اقوام نے یہ جان لیا کہ قوموں کے درمیان تضاد کو ہر قوم کے حق ارادیت کے حصول کو مان کر ہی کم کیا جا سکتا ہے ۔یہ ہمہ گیر سیاسی ہم آہنگی اقتصادی ہم آہنگی میں تبدیل ہوتی ہے اور سرحدیں بے معنی بن جاتی ہیں۔آسیان،جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم بھی اِسی راہ پہ چلنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سارک جو کہ جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم ہے حالات سے سمجھوتے کیلئے راضی نظر نہیں آتی، لہٰذا قوموں میں تضاد جاری ہے۔دیر یاسویر جنوبی ایشیا کو حالات کی نئی نہج کو جاننا اور ماننا ہو گا۔غیر ازیں 21 مئی جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
Feedback on<[email protected]>