جموں / /ایک اہم قدم کے تحت سینکڑوں ڈیلی ویجروں کی ملازمتیں باقاعدہ بنانے کے ریاستی حکومت کے فیصلے سے قریباً دو دہائیوں سے پریشان حال 9زمرے مستفید ہوں گے۔مستحقین میں دیہاڑی پانے والے ، کیجول ،سیزنل ،ایچ ڈی ایف ،لوکل فنڈ ورکرس ، این وائی سیز ،زمین عطیہ دینے والے ،ایس پی اوز اور جموں وکشمیر سول سروسز سپیشل پرویژنز ایکٹ 2010 کے تحت باقی ماندہ ایڈ ہاک اور کنٹریکچول ملازمین شامل ہیں۔ حکومت نے ان کی ملازمتوں کو باقاعدہ بنانے کا منصوبہ مرتب کیا ہے اور اس ضمن میں عنقریب محکمہ خزانہ احکامات جاری کر رہا ہے۔تعلیمی ، تکنیکی اور پیشہ وارانہ مہارت کی بنیاد پر ان ورکروں کی ملازمتیں باقاعدہ بنانے اور تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے باہنر اور بے ہنر زمروں کے دائرے میں لایا جارہا ہے۔محکمہ خزانہ نے کہا کہ یہ ملازمین تمام مالی اور سروس فوائد سے مستفید ہوں گے جن میں تنخواہوں میں سالانہ اضافہ این پی ایس کے تحت پنشن ، چھٹی اور طبی اخراجات کی ادائیگی ، پے کمیشن کے طرز پر تنخواہوں میں وقتاًفوقتاً پر اضافہ ، سروس ریکارڈ کو مرتب کرنے اور ملازمت کے دیگر قواعد و ضوابط کابھی ان پر اطلاق ہوگا جس میں سبکدوشی سے متعلق قواعد و ضوابط بھی شامل ہے۔وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب اے درابو نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی مداخلت کے بعد حکومت نے پہلے ہی ڈیلی ویجروں کی نوکریوں کو باقاعدہ بنانے کے لئے مرتب کیا گیا نقش راہ منظور کیا ہے اور ا س ضمن میں محکمہ خزانہ عنقریب ایس آر او جاری کررہا ہے۔اگر چہ باہنر اور بے ہنر ورکروں کے لئے تنخواہوں کی شرح مختلف ہوگی تاہم اس میں مدت ملازمت کی بنیاد پر اضافہ ہوگا۔ریگولرلائزیشن سکیم سے مستفید ہونے والے وکروروں کی تعداد کے بارے میں وزرات خزانہ نے کہا اگر چہ اس سلسلے میں مختلف اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں تاہم ایسے ورکروں کی تعداد کوہر ورکر کی بائیو میٹرک جانچ کے بعد ہی حتمی شکل دی جائے گی۔اس نوعیت کے ورکروں کی سب سے زیادہ تعداد صحت عامہ میں ہیں اور اس کے بعد محکمہ بجلی ،محکمہ تعلیم ،محکمہ تعمیرات عامہ ، محکمہ آبپاشی و فلڈ کنٹرول ،جنگلا ت و صحت و طبی تعلیم ، محکمہ زراعت ، محکمہ شہری ترقی ، زراعت ، پشو پالن و ماہی پروری میں بھی ڈیلی ویجروں کی کافی تعداد کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔اس طرح کے ورکر دیگر محکموں میں بھی ہیں اور انہیں بھی ریگولررائزیشن کے سکیم میںلایا جارہا ہے۔ڈاکٹر درابو نے کہا کہ ڈیلی ریٹیڈڈ ورکروں / ورک چارچرڈ ملازمین جن کی خدمات جنوری31، 1994سے قبل حاصل کی گئی تھی کو باقاعدہ بنانے کے لئے ایس آر او 64آف 1994 میں درج پالیسی ایس آر او 64جاری کرنے کی تاریخ سے ہی موجود ہے۔انہوںنے کہا کہ بااختیار کمیٹی تب تک وقفاً وقفاً ملتی رہے گی جب تک کہ نہ آخری ایڈہاک ، کنٹریکچول ملازم جو اہل ہونے کے ساتھ ساتھ وزارت خزانہ میںدرج بھی ہو، کی ملازمت کو باقاعدہ نہیں بنایا جاتا تاہم اس کے لئے جے اینڈ کے سول سروسز( سپیشل پراویژنز ایکٹ 2010) کے تحت اہل ہونا لازمی ہے۔ ڈاکٹر درابو نے کہا کہ حکومت 30؍ جون 2015کو جاری ایس آر او 202کا بھی جائزہ لے رہی ہے جس کے تحت نان گزیٹیڈ کاڈر میں تعینات کئے گئے ملازمین اپنی ملازمت کے پہلے پانچ برسوں کے دوران کم سے کم بنیادی تنخواہ اور گریڈ پے کے مستحق ہوں گے ۔
بھارتی صنعتکار جموںو کشمیر کی ترقی میں شامل ہوجائیں: وزیر خزانہ
نئی دلی / /وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب اے درابو نے ملک بھر کے بڑی کمپنیوں کو جموں و کشمیر کی ترقی میں عملی طور شامل ہوکر ریاست میں سرمایہ کار ی کر نے کے لئے کہا ہے۔ڈاکٹر درابو نے فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی 90ویں سالانہ جنرل میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کافی گنجائش موجود ہے جن میں توانائی ، باغبانی ، ہینڈ لوم ، دستکاری ، بائیو ٹیکنالوجی ، فوڈ پروسسنگ ، سیاحت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، تعلیم ،سکل ڈیولپمنٹ اور کھیل کود شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میںغیر ملکی یونیورسٹیوں کے لئے خصوصی تعلیمی زون ، منفرد دستکاری اور کھیل کود اشیاء کیلئے خصوصی اقتصادی زون بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں ڈرائی پوٹ اور کولڈ چین قائم کرنے کے لئے بھی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ڈاکٹر درابو نے میٹنگ میں موجود بھارت کے معروف صنعتکاروں سے کہا ’’ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ جموں کشمیر اور اس کے عوام کے ساتھ رابطہ قایم کر یں تا کہ ریاست ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی سی سی آئی ریاست کی سیاحتی صنعت کو اعلیٰ معیار کی تقاریب کا انعقاد کر کے اور طبعی اور ڈیجٹل رابطہ سہولیات قایم کر سکتے ہیں ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ریاست کے جغرافیائی خدو خال کے تحت جموں کشمیر جنوبی اور وسطِ ایشیا کے مابین خطے میں ایک نیا اقتصادی مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وسطِ ایشیا اور جموں کشمیر کے مابین تاریخی روابط رہے ہیں اور ریاست خطے میں روائتی اقتصادی روابط کی بحالی کیلئے زمینی ٹرانسپورٹ شاہراہ بن سکتا ہے ۔ ریاست میں جی ایس ٹی کی عمل آوری کا ذکر تے ہوئے ڈاکٹر درابو نے کہا کہ اس نئے ٹیکس نظام میں تکنیکی اور اوپریشنل رکاوٹیں درپیش ہیں تا ہم اس سے بھارتی اقتصادیات کو وفاقی درجہ حاصل ہوا ہے اور ملک کے تجارتی طریقہ کار میں بھی واضح تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔