گاندربل//بارسو گاندربل کے مہلوک اور زخمی ہوئے دو نوجوانوں کے افراد کنبہ بے یار و مدد گار اپنے بچوں کیلئے انصاف کے متلاشی ہیں ۔ان میں سے ایک نوجوان فورسز کی گولی لگنے سے لقمہ اجل بنا جبکہ دوسرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاءہے ۔کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے جان بحق ہونے سے بے یار و مددگار بن گئے ہیں اور انصاف کی کوئی بھی کرن نظر نہیں آرہی ہے ۔واضح رہے کہ 9 اپریل 2017 سرینگر پارلیمانی ضمنی انتخابات کے سلسلے میں ہوئی ووٹنگ کے روز بارسو گاندربل میں ایک خونین واقعہپیش آیا جس میں فورسز کی فائرنگ سے 2 نوجوان عمر فاروق ولد فاروق احمد گنائی ساکن بارسو گاندربل جبکہدوسرا کولگام کا مظفر احمد میر ولد مرحوم غلام نبی شدید زخمی ہو گئے ۔اگرچہ ان دونوں کو میڈیکل انسٹیچوٹ صورہ منتقل کردیا گیا تاہم عمر فاروق ولد فاروق احمد گنائی اسی روز زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا جبکہ 21 سالہ مظفر احمد میر ولد مرحوم غلام نبی ساکنہ زنگل پورہ کولگام موت و حیات کی کشمکش میں سرجیکل آئی سی یو وارڈ میڈیکل انسٹیچوٹ صورہ میں زیر علاج ہے۔مظفر احمد میر کے بڑے بھائی الطاف احمد میر نے کشمیر عظمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا چھوٹا بھائی مظفر احمد اس وقت کوما میں سرجیکل وارڈ میں زندگی اور موت کے درمیان لڑ رہا ہے ڈاکٹروں کے مطابق ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ مظفر احمد کی حالت نازک ہوتی جارہی ہے 9اپریل 2017 سے اب تک علاج پر 60 ہزار سے زائد روپے خرچ ہوگئے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق حالت تشویشناک ہے۔الطاف احمد نے مزید کہا کہ "میں گاڑی چلاتا ہوں جبکہ مظفر احمد گاندربل میں ڈیڑھ سال سے ٹھیکیدار کے ساتھ مکسر چلاتا ہے مجھے بارسو کے مقامی لوگوں نے کہا کہ 9اپریل ووٹنگ کے روز جس وقت فائرنگ ہوئی اس وقت مظفر احمد کھانا پکانے کے لئے سودا لانے دوکان گیا کہ اسی ودران فورسز نے فائرنگ کردی جس میں سے مظفر احمد کو پیٹ کے پیچھے گولی مار دی گئی اوربہت زیادہ خون بہہ جانے سے حالت نازک بنی ۔گھر کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ چند سال قبل ہمارے والد بلڈ کینسر میں مبتلا ہونے سے وفات پاگئے ان کے علاج معالجے پر 6لاکھ روپے صرف ہوئے کچھ قرض ہونے کی وجہ سے مظفر احمد نے آٹھویں جماعت میں پڑھائی ادھوری چھوڑ کر مزدوری کرنے گھر سے نکلا جبکہ ہماری والدہ بھی دل کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ابھی والد کی وفات کا غم میں ہی ڈوبے ہوئے تھے کہ یہ قیامت ہم پر پڑی نہ ہی مظفر احمد پتھراو¿ بازی میں ملوث تھا اور نہ ہی کسی تخریب کاری میں غربت کی وجہ سے گھر سے دور ررزی روٹی کمانے گیا تھا "۔