محمد تسکین
بانہال //جموںسرینگر قومی شاہراہ کا ڈگڈول سے لیکر ماروگ تک10کلومیٹر کا سیکٹر کسی پرانے قلعہ سے کم نہیں لگتا ہے جہاںپہاڑوں کے ساتھ لگے کچھ پختہ پشتے ابھی بھی سالم حالت میں موجود ہیں جبکہ دیگر کئی پشتے انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ایک رابطہ سڑک بھی موجود ہے جو آگے چل کر ایک ایسے مقام پر ختم ہوجاتی ہے جو کہیں پہنچاتا نہیں ہے۔اسی سیکٹر میں بیچ بیچ میں کئی سڑکوں کے نشانات موجود ہیں جنہیں جزوی طور تعمیر کرکے ادھورا چھوڑ دیاگیا ہے ۔یہ کہانی ہے قومی شاہراہ تعمیر کرنے والی نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا کی اُس دانشمندی کی ،جس کے تحت قومی شاہراہ کے رام بن ۔بانہال کے پُر خطر سیکٹر پر قومی شاہراہ کی تعمیر کو ری الائن کیاگیا لیکن اس سے قبل 3سال تک بنا کسی منصوبہ بندی کے کام کرکے 800کروڑ روپے ضائع کردئے گئے۔
پروجیکٹ کی تاریخ
2015کے واخر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی والی اقتصادی امور سے متعلق کابینہ کمیٹی نے پہلے ہی سے تاخیر کا شکار ادھم پور ۔ بانہال فورلین شاہراہ کی تعمیر کو منظوری دی تھا ۔اس میںادھم پور ۔رام بن کا 40کلو میٹر سیکٹر اورانتہائی ناقابل بھروسہ و پُر خطر36کلو میٹر طویل رام بن بانہال سیکٹر بھی شامل تھا۔ادھم پور ۔رام بن سیکٹر پروجیکٹ کیلئے ابتدائی لاگت کا تخمینہ 1709.99کروڑ روپے تھا جس پر بعد میں نظر ثانی کرکے 2236.65کروڑ روپے مقرر کیاگیا۔تاحال اس پروجیکٹ کا 55فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔36کلومیٹر لمبے رام بن ۔ بانہال سیکٹر میں فورلین شاہراہ کی تعمیر کیلئے ابتدائی لاگت کی رقم 2168.66کروڑ روپئے رکھی گئی تھی لیکن بعد میں اسے توسیع دیکر اس سیکٹر کی لاگت 2885.35کروڑ روپے کردی گئی۔ اس منصوبے کے تحت چندرکوٹ اور مکرکوٹ کے درمیان کئی چھوٹئے ٹنلوں سمیت سڑک کی کشادگی کا کام کیا گیا جس پر کروڑ روپئے کی رقم خرچ کی گئی ۔ادھم پور رام بن سیکٹر کا ٹھیکہ گیمن انڈیا لمیٹیڈ کو دیا گیا تھا جبکہ جغرافیائی اور پہاڑوں کی ساخت کے لحاظ سے دشوار رام بن بانہال سیکٹر کا کام ہندوستان کنسٹریکشن کمپنی کو سونپ دیا گیا تھا ۔ دو حصوں میں بٹے اس پورے پروجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئے نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا نے بالترتیب 2018اور 2019کی ڈیڈ لائنیں مقرر کر رکھی تھیں لیکن تعمیراتی کمپنیوں کو ملی کئی ڈیڈلائنوں کے ختم ہونے کے باوجود بھی یہ سیکٹر ابھی زیر تعمیر ہیں ۔
جب3سال اور800کروڑ ضائع ہوئے
حیرت انگیز طور پر نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا کے حکام نے پہلے ایچ سی سی اور ضلع انتظامیہ رام بن کی طرف سے مزید ٹنلیں تعمیر کرکے سفر کو محفوظ بنانے کی تجاویز مشتردکردیںاور بعد میں برسوںبعد نیشنل ہائے وے اتھارٹی نے کام روکنے کا حکم دیا اور2021میں منظور شدہ سیکٹر کیلئے دوبارہ ایک منصوبہ ترتیب دیا گیا اور قیمتی وقت، افرادی قوت، مشینری اور پروجیکٹ پر خرچ ہونے والی بھاری رقوم کا ضیاع کیا گیا ۔ اس کام کے دوران سڑکوں کے کئی ایسے حصے ہیں جو جزوی طور پر بنائے گئے اور چھوڑ دیئے گئے ہیں اور پرانے منصوبہ کا70فیصد کام بھی مکمل ہوا تھا تاہم اس کو ادھورا چھوڑاگیا اور یوں سرکاری خزانے کو 800کروڑروپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔ فورلین شاہراہ کی تعمیر سے وابستہ جانکار ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ رام بن بانہال سیکٹر میں800کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کئے گئے کچھ حصوں کو ترک کردیا گیا ہے۔ہندوستان کنٹریکشن کمیٹی نے پروجیکٹ پر دسمبر2015میں کام شروع کیااور350کروڑ روپے خرچ کرنے کے بعد پروجیکٹ CPPLکو سبلیٹ کردیا جنہوںنے مزید450کروڑ اس پروجیکٹ پر صرف کئے ۔ایچ سی سی حکام نے کہا کہ پہلے نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا نے اس سیکٹر کیلئے 1700 کروڑ روپے کی رقم منظورکی جو بعد میں کم کرکے 1100 کروڑ رپے کر دی گئی ۔ اب ماروگ اور سلاڑھ شیر بی بی کے درمیان نئے منصوبے پر ٹنلیگ اور ویا ڈکٹ ، یا نالہ بشلڑی کے کنارے فلائی اوور کے نئے منصوبے پرکام شروع کیا گیا ہے جبکہ شاہراہ کے ترک کئے گئے منصوبے پر قریباً70فیصد کام بھی مکمل ہو چکا تھا۔
خطرات سے پیشگی آگاہ کیاگیاتھا
دلچسپ بات یہ ہے کہ رام بن بانہال سیکٹر میں سب سے پہلے ٹھیکہ لینے والی تعمیراتی کمپنی ایچ سی سی نے ڈھیلے پہاڑوں اور کمزور چٹانوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس سیکٹر کے کمزور حصوں میں سرنگیں تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جبکہ مارچ 2017میں ضلع انتظامیہ رام بن نے بھی ناشری اور بانہال کے درمیان کئی مقامات پر ٹنلیں بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس وقت کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رام بن نے 16مارچ 2017 میں لکھے ایک خط زیرنمبر957-64/ACQ/NH1Aمیں نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا کو لکھا تھاکہ قومی شاہراہ کو فورلین شاہراہ بنانے کا کام غیر مستحکم اور نازک پہاڑی اور پسیوں کا شکار ہوئے علاقوں سے کیا جا رہا ہے اور ان علاقوں میں سرنگیں بنانے کی ضرورت ہے تاہم ذرائع کے مطابق اسوقت نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا نے اس تجویز کو نظر انداز کرتے ہوئے تعمیراتی کمپنیوں کو شاہراہ کی کشادگی کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئے کہا تھا ۔ اس تجویز کے ردعمل میں پرشوتم کمار کا کہنا ہے کہ ایچ سی سی کی طرف سے ٹنلیں تعمیر کرنے کی تجویز “غیر مناسب تھی اور صرف چند جگہوں پر ہی سرنگ لگانے کی تجویز دی گئی تھی اور ان جگہوں میں سے ایک دو مقامات پر سرنگ کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ان مقامات پر سڑک کو کشادہ کرکے ہی تعمیر کیا گیا ہے‘‘ ۔
حکام کا موقف
رام بن بانہال سیکٹر کی نگرانی کرنے والے نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا صوبہ جموں کے پروجیکٹ ڈائریکٹر پرشوتم کمار پھونسا نے کشمیرعظمیٰ کو بتایا کہ نئے ترتیب دیئے گئے شاہراہ کے تین منصوبوں کی لاگت 3800کروڑ روپے رکھی گئی ہے اور اس میںماروگ اور مکرکوٹ کے درمیان ٹنلنگ اور مکرکوٹ سے سلاڑھ شیر بی بی کے درمیان نالہ بشلڑی کے کنارے فلائی اورکی تعمیر کا منصوبہ ہے ۔رام بن اور شیر بی بی سیکٹر کے کئی مقامات پر سابق منصوبے کے ترک کئے گئے حصوں کے کا اب کیا ہوگا ؟ اس پرNHAIپروجیکٹ ڈائریکٹر پرشوم کمار پھونسا نے کہا ’’یہ سڑکیں مقامی لوگ اور بھاری مال لیکر چلنے والی گاڑیاں استعمال کریں گی”۔انہوں نے کہا کہ’’ دوبارہ ترتیب دیاگیامنصوبہ 5 سرنگوں، 33 کلورٹس، 13وایا ڈکٹ، 11چھوٹے پلوں، اور تین انڈر پاسز پر مشتمل ہے تاکہ سڑک کے مہلک اور پرخطر حصوں کو بائی پاس کیا جا سکے‘‘۔پرشوتم کمارکے مطابق دوبارہ ترتیب دیاگیا تعمیراتی منصوبہ چار مختلف کمپنیوں بشمول TATA، CEIGALL India Limited اور پٹیل انجینئرنگ لمیٹڈ اور DRAکے ساتھ جوائنٹ وینچر میں الاٹ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دوبارہ ترتیب دیئے گئے موجودہ پروجیکٹ پر پیکیج نمبر1کے تحت کام کی پیش رفت ابھی صفر فیصدی ہے جبکہ پیکیج دوم پر1.05فیصد اور پیکیج سوئم پر 5فیصدکام ہوچکا ہے۔
زمینی صورتحال کیا ہے؟
سیگال انڈیا لمیٹیڈکے پروجیکٹ منیجر بھیم سین چودھری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ان کی کمپنی جی ایس ٹی کے بغیر چار سو پچاس کروڑ روپئے کی کی لاگت سے نالہ بشلڑی کے کنارے مکرکوٹ سے سلاڑھ شیر بی بی تک6.6کلومیٹر طویل فلائی اور ڈگڈول اور خونی نالہ کے درمیان جی ایس ٹی کے بغیر 800کروڑ روپئے کی لاگت سے دو سرنگوں پر مشتمل ٹنل تعمیر کرے گی۔انہوںنے کہاکہ وایا ڈکٹ1اور 2کا30فیصد کام مکمل کیا گیا ہے جبکہ وایا ڈکٹ 3 اور 4 کا کام ابھی خاکہ ساری کے مرحلے میں ہے ۔ ڈی ایم آر نامی کمپنی مہاڑ اوع کیفٹیریا موڑ رام بن کے درمیان775میٹر لمبی دو سرنگوں پر مشتمل ٹنل تعمیر کرے گی جس کی لاگت 371کروڑ روپے ہے ۔ کمپنی کے پروجیکٹ منیجر جتندر مشرا نے بتایاکہ ایک سرنگ میں پچاس میٹر کی کھدائی کا کام مکمل کیا گیا ہے جبکہ یہاں سڑک کے استحکام کیلئے کنکریٹ فلنگ وغیرہ سے کام لیاجارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایم آر کمپنی ناشری کے قریب ڈھلواس میں چار پلوں اور مہاڑ کے مقام کٹ اینڈ کور سے 570میٹر لمبے ٹنل کا کام بھی انجام دے رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس سال اپریل میں کام شروع کیا گیا ہے اورانہیں توقع ہے کہ یہ کام 2023کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ گیمن انڈیا چندر کوٹ میں دوٹنل ٹیوب بنا رہی ہے جس کا900میٹر مکمل ہوچکا ہے جبکہ رام بن بائی پاس پرسات سو میٹر کا کام مکمل کیا گیا ہے اور آٹھ سو میٹر کا کام باقی ہے ۔ گیمن انڈیا لمیٹیڈ کے پروجیکٹ منیجر بپن سنگھ نے بتایا کہ چندر کوٹ ٹنل کا کام تاخیر کاشکار رہا کیونکہ “ٹرانسپورٹروہاں مال بھیجنے پر راضی نہ ہوئے اور انہیں ادھم پور سے اپنے ٹرکوں کو مال لانے کیلئے استعمال کرنا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ رام بن بائی پاس فلائی اور کا کام دسمبر 2022کے آخر تک مکمل ہونے کی امید ہے۔نیشنل ہائے وے تھارٹی آف انڈیا کے پروجیکٹ ڈائریکٹر پرشوتم کمار پھونسا کا کہنا ہے کہ دوبارہ ترتیب دیئے گئے نیشنل ہائے وے پروجیکٹ کو 2025تک مکمل کیا جائیگا ۔