فتنہ کے لغوی معنی آزمائش ،امتحان ،اختیار کے ہیں ۔ بندے کی زندگی میں وقتاًفوقتاً اللہ کی طرف سے مختلف آزمائشیں اور امتحانات ہوتے رہتے ہیں ۔ اس لئے آزمائشوں میں پڑنا کوئی بری بات نہیں۔البتہ ان میں صبر وتحمل اور اصلاح احوال کرکے کامیاب ہونا بڑی بات ہے مگر ایسا کر تے ہوئے اپنے آپ کوروزمرہ کے فتنوں سے دور رکھنا چاہئے۔قانون ِقدرت کا فیصلہ بھی کتنا عجیب ہے کہ فتنوں میں پڑنے سے ایک بندے کا درجہ بلند ہوتا ہے بشرطیکہ وہ ان میں سرخرو ہوکر نکلے۔ تاریخ انسانیت گواہ ہے کہ سب سے زیادہ آزمائشیں پیغمبروں ؑ کی ہوئیں۔انہوں نے صبر بھی کیا، حالات سے بہترین انداز میںنمٹ بھی لیا اور مشکلات کے باوجود اللہ کی کامل فرمان برداریاں بھی کیں ۔ ا ن وجوہ سے ان کا درجہ ورتبہ بلند سے بلندتر ہوا ۔اُن کے بعد بعد صحابہ کبار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سب سے زیادہ آزمایشوں کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ بھی ان میں اپنے نیک اعمال اور اللہ کے فضل و احسان سے کھرا اُترے۔ فتنہ قیامت کی علامات میں سے شرور وفتن ہیں جو آج کل چل رہی ہیں ۔ حدیث جبرئیل کے راوی حضرت ابوہریرہ ؓ قیامت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب جبریل امین ؑ نے آنحضرت ﷺسے قیامت کے بارے میں پوچھاتو آپؐ نے ارشاد فرمایا :حقیقی علم تو اللہ کو معلوم ہے، البتہ میں ا س کی چند نشانیاں بتاؤں گا ، جب لونڈی اپنے مالک کو جنم دے گی ،جب ننگے پاؤںننگے بدن والے لوگ رئیس بن جائیں گے ،جب بکریوں کے چرواہے ا یک دوسرے سے لمبی عمارتیں بنانے لگیں گے۔
قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں پوشیدہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا :بے شک اللہ کے پاس ہی قیامت کا علم ہے ، بارش کے نازل ہونے کا وقت کیا ہے اور جو کچھ ماؤںکے پیٹوں میںہے جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کچھ کرے گا (تقدیر)اور نہ کسی کو معلوم ہے کی وہ کہاں مرے گا۔
ایک مسلمان سن بلوغیت آتے اور شعور بیدار ہونے کے بعد اکثر ایمان کی آزمائش میں پڑتا رہتاہے ۔ایسی ہرآزمائش میں کامیابی کانسخہ یہ ہے کہ انسان ہر لمحے اور ہرحال میںاللہ کی توحید دل میں راسخ رکھنے کے ساتھ یاد رکھے کہ جب جب انسان اللہ تعالیٰ کو بھول گیا تب تب بندہ گناہوں اور لغزشوں کا مرتکب ہوا ْ۔ امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب انسان کے دل سے اللہ کی محبت دور ہوجاتی ہے تب وہ لوگوں (یعنی نا حق لوگوں) سے محبت کرنے لگتا ہے اور جب اُسے وہ محبت حاصل نہیں ہوتی تب وہ پاگل ہو جاتاہے یا خود کشی کرتا ہے۔اس لئے ہمیں چاہئے کہ فتنوں کے درمیان اپنے ایمان کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں۔
فتنہ کی یہ پہلی قسم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے ۔اس لئے کہ ایمان لانا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ اس پہ استقامت دکھانا۔ایمان تو اکثر مسلمان لاتے ہیں مگر اس پر ثابت قدمی تو کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہے ۔متعدد صحیح احادیث مبارکہ میں ہمیں اس بات کی تلقین ملتی ہے کہ ہمیں اپنے ایمان کی حفا ظت مرتے دم تک کرنی چاہیے اور ربِ کریم سے دعا گو ہونا چاہئے، اے اللہ ! ہمیں ثابت قدمی عطافرما ،ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔آں حضو ر ﷺ نے فرمایا :’’اعمال (صالحہ)کرنے میں جلدی کرو کیونکہ اندھیری رات کی مانند فتنے نازل ہونے والے ہیں ۔آدمی صبح کو مومن ہوگا توشام کو کافر ہوجائے گا ۔وہ دنیا کے کچھ سامان کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا‘‘ ۔یہ حدیث پاک آج کے زمانے کی عکاسی کرتی ہے کہ انسان کو صبح آنکھ کھولنے سے لے کررات سونے تک ہزاروں قسم کی ا ٓزمائشوں اور امتحانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس لئے اپنے ایمان کی حفاظت کتنی ضروری ہے، یہ محتاجِ وضاحت بات نہیں۔
فتنوں کے بارے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ قیامت سے پہلے ایسے فتنے (رونما ) ہوں گے جیسے تاریک رات کے ٹکڑے ،اُن میں انسان صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوجائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر بن جائے گا ۔ان فتنوں کے دور میں بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے ،کھڑا ہواچلنے والے سے اور چلنے والا بھاگنے والے سے بہتر ہوگا ۔اگر فسادی تم میں سے کسی کے گھر میں داخل ہوجائے تو آدم کے دو بیٹوں میں سے اچھے بیٹے کی طرح ہونا۔ایک اور صحابی رسول ﷺ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم ﷺ مدینہ کے محلات میں سے ایک محل پر چڑھے اور صحابہ ؓسے دریافت فرمایا :کیا تم وہ کچھ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہاہوں ؟صحابہؓ نے عرض کیانہیں اے اللہ کے رسولؐ۔آپ ؐنے فرمایا کہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح گرتا دیکھ رہا ہوں ۔
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا :اس دور میں ایک مومن کو اپنے ایمان کی حفاظت اتنی مشکل ہوگی جتنا کہ آگ کا انگارا ہا تھ میں لینے سے ہوتی ہے۔
ایک دوسری حدیث مبارکہ میں فرمایا : اس اُمت کی عافیت اس کے پہلے حصے میں رکھی گئی ،آخر والوں کو ایسی آزمائشیں آئیںگی جن کو آپ (صحابہ ؓ) عجیب محسوس کریںگے ۔پھر فتنے پیش آئیںگے جوایک دوسرے کو معمولی بنادیں گے ( یعنی بعد کے فتنے زیادہ خطرناک ہوں گے)،مومن کہے گا یہ فتنہ مجھے مار ڈالے گا پھر وہ فتنہ ختم ہوگا پھر دوسرا۔ہر آنے والا زمانہ پہلے زمانے سے بر اہوگا ۔کثرت ِفتن کی وجہ سے انسان موت کی تمنا کرے گا۔ لہٰذااگر چاہتے ہو کہ جنت میں داخل کیا جاؤں تو اُسے جب موت آئے ،اس حال میںآئے کہ وہ اللہ اور آخرت پر اِیمان رکھتا ہو ۔
آج فتنوں کا دوردورہ ہے ، معاشرے میں بے حیا ئی عروج تک پہنچی ہے ، نوجوانوں کی بات ہی کیا بوڑھے لوگوں تک کا ایمان خطرے میں پڑاہے ۔خرید وفروخت میں اتنی دھوکہ بازیاں ہیں کہ ایک عام سادہ لوح انسان کے سمجھ میں ہی نہ آئے ، بازاروں میں لوٹ مار عام ہے ،روز کہیں نہ کہیں چوریاں ،ڈکیتیاں ،قتل و غارت اور بدعنوایناںہورہی ہیں۔بازارچھوڑیئے آج ہمارے گھر سنیماگھر بنے ہوئے ہیں ،نتیجہ یہ کہ ہمار ے گھروں میں فساد وفتن فساد پے درپے گھس رہے ہیں ۔ جب ہم نے خوداپنے نفسوں پہ ظلم کیا ہو تو اغیار ہمارے خلاف ظلم وتشددکی بھٹیاں کیوں نہ سلگائیں ؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐنے فرمایا:اے مہاجرین کی جماعت ! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوگئے تو ا ن کی سزا ضرور ملے گی۔اول یہ کہ جب کسی قوم میں بے حیائی (بدکاری وغیرہ ) اعلانیہ ہونے لگے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاںپھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوںمیںنہیں ہوتی تھیں۔دوم یہ کہ جب وہ ناپ تو ل میں کمی کرے تو اسے قحط سالی ،روزگار کی تنگی اور بادشاہ کے ظلم کے ذریعے سزا دی جائے گی ۔سوم جب وہ اپنے مالوں کی زکوٰۃدینا بند کرے تو ان پر آسمان کی بارش روک لی جائے گی ۔اگر جانور روئے زمین پر نہ ہوتے بارش کبھی نازل نہ ہوتی ۔چہارم یہ کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکا عہد توڑے تو اس پر دوسری قوموں کے دشمن مسلط کر دئے جائیںگے۔وہ ان سے وہ کچھ چھین لیں گے جو ان کے ہاتھ میں ہو۔پنچم یہ کہ جب اس کے امام اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے، اللہ اور جو اللہ نے اُتارا ہے ،اُ سے اختیار نہیں کرتے تواللہ ان میں آپسی لڑائی میں ڈال دے گا ۔
یہ حدیث شریف آج کے زمانے کے بہت سے مشکل سوالوںکا جواب دے رہی ہے۔ہم آج ہر ایک عذاب میں گرفتار ہیں،اس لئے کہ ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں۔ اگر ہم شروع بے حیائی کے موضوع سے کریں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے لوگ کتنے خوشحال ہیں ، اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو چاروں طرف قوانین اور آداب کی بندشوں میں جکڑکر ان پر اپنی حدود’’ سختی ‘‘کے ساتھ نافذ کر تاہے ۔ بالفاظ دیگر ہم مغرب کی نام نہاد ’’آزا دیوں‘‘ سے مرعوب ہوکر اسلامی احکامات کی بندشوں سے فرارچاہتے ہیں۔ حالانکہ دیارِمغرب کی ’’ خوش حالیوں اور آزادیوں‘‘ کی حقیقتیں کچھ اور ہیں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں۔مثلاً 2013ء میںویسٹرن کانٹریزمیں ایک انفیکشن جو مردوزن میں متعدد لوگوں کے ساتھ ناجائز جنسی تعلق کے سبب سے پھیلا تو عالمی ادارہ ٔ صحت نے عوام کا ایک طبی ٹیسٹ کروایااور جو رپورٹ سامنے آئی تو 141ملین اس انفیکشن کے متاثرہ پائے گئے ۔ تین سال بعدادارے نے دوبارہ یہی ٹیسٹ کروایا جو CHLAMYDIA ENERGY PARASITE BACTERIAکی وجہ سے پھیلتا ہے ،تو یہ تعداد250ملین تک پہنچی تھی ۔ یہ ایک ایسا بیکٹیریا ہے جس کا انفیکشن گرچہ بہت پہلے سے متاثری میںموجودہوتا ہے لیکن اس کا پتہ آخری مر حلے پر چلتا ہے، اسی لئے اسے خاموش وبا بھی کہا جاتا ہے ۔اس کے دو خاص کام یا علامات ہیں : آنکھوں کی بینائی کم ہونا اور اعضائے مخصوصہ میں سوزش اور جلن۔یہ بیکٹیریا چپ چاپ متاثرین کے تن بدن میںچھپ کے اپنے منفی اثر ات کا جال پھیلاتا ہے اور پھر خون کی شکل میںتناسل ِنسل کا مواد انسانی جسم سے کشید کر کے باہر کرتا ہے۔اس س متاثرین کی جِلد سرخ ہوجاتی ہے اور ڈاکٹر انہیں تپتے سورج میں ننگے جسم ریت کی تپش پر لیٹنے کا علاج تجویز کر دیتے ہیں ۔اس حقیقت سے ناواقف لوگsun bath سے کچھ اور سمجھتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بوس وکنار ہونے سے پھیل جانے والی بیماری کے علاج کے لئے یورپ میں ہر دن دس ہزار لوگ آن لائین علاج کرواتے ہیں ۔آج کل تو جان لیوا یچ آئی وی بوسہ کرنے سے بھی پھیلتا جاتا ہے ۔بے حیائی ، شہوت پرستی اور فطرت سے بغاوت کے برے نتائج اور مفاسد کی فصل کاٹ لینے کے بعد آج یورپین قوموں کی نئی نسلیں ان ناگفتہ بہ اثرات سے نجات پانے کیلئے بھی اسلام کے دامن ِعفت اورسایہ ٔ رحمت کی طرف راغب ہو رہی ہیں ۔ فتنہ وآزمائش کی اس جان لیوا قسم سے جو بھی کلمہ گو بچارہا ، جان لیجئے وہ مولائے کریم کا گویا پیاراچنیدہ بندہ ہے۔
آزمائشوں میں دوسری قسم مال کی آزمائش ہے ۔ حدیث ِپاک سے واضح ہوتا ہے: یقینا انسان کیلئے مال ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔اسی لئے نبی محترمؐنے فرمایا کہ ہر ایک اُمت کا ایک(خاص)فتنہ ہوتا ہے اور میری اُمت کافتنہ مال ہے ۔
ایک انسان بہت سارے طریقوں سے مال وزر کے تعلق سے آزمائش کی بھٹی میں ڈالا جا سکتا ہے۔ رب العزت قرآن مجید کے ذریعے پہلے ہی اپنے بندوں کو ا س حقیقت سے
خبر دارکرتے ہوئے فرماتا ہے : ’’تمہارا مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمایش ہیـــــــــ ـ‘‘ ۔ــ
ـ’’مال اور اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے (کہیں)غافل نہ کردے ‘‘۔
’’مال اور اولاد تو دنیا کی زینت ہی تو ہیں‘‘
آج کل مادیت کے زیر اثر ان تنبیہات سے غافل لوگ لا پروا ئی کے عالم میں یہ فکر ہی نہیں کرتے کہ وہ کہاںسے کماتے ہیںاور کدھر خرچ کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے مال کمانے میں حق و باطل یا جائز وناجائز کی تمیز ہی کھودی ہو ، وہ اللہ کے نافرمان ٹھہرتے ہیں۔اس نوع کی نافرمانی کی پاداش میں تین بڑی سزائیں مقررہیں :اول یہ کہ یہ لاپروا بے فکرا کتنی ہی زیادہ عبادت کرے ،نہ ہی اس کی فرض عبادات اور نہ ہی نفلی عبادتیں عنداللہ قبول ہوتی ہیں ۔ دوئم اللہ اُن پر قیامت کے دن اپنی نظر رحم نہیں فرمائے گا ۔سوئم نہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں پاک نہیں کرے گا (جنت میں داخلہ پانے کے لئے)۔ مال وزر کے بندوں کی سودخوری کے حوالے سے رب العالمین کا ارشاد پاک ہے : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو !اللہ سے ڈرو اور جو سود لوگوںکے پاس باقی رہ گیا ہے، اُسے چھوڑدو، اگر تم واقعی مومن ہو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ،اگر تم نے توبہ کرلی تو اصل رقم لینے کے حق دار ہو، نہ دوسروں پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
’ــ’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (اپنی قبروںسے )اس طرح اُٹھیں گے جس طرح وہ آدمی جسے شیطان نے چھوکر دیوانہ(پاگل) بنادیا ہو ( انہیںیہ سزا)اس لئے(ملے گی)کہ وہ کہا کرتے تھے کہ خریدوفروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے ،حالانکہ اللہ نے خریدوفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرامــ‘‘۔
اسلام کی رُو سے سود کے ستر درجوں میں سب سے چھوٹا درجے کا گناہ ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے ۔سود لینے ،دینے،لکھنے ،گواہ رہنے والوں پر اللہ کے رسول ؐنے لعنت فرمائی ہے ۔
مال و زر کے تعلق سے نافرمانی کی دوسری شکل رشوت ستانی ہے ۔اس سلسلے میں ربِ کریم کا فرمان ہے کہ ’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ، نہ ہی ایسے مقدمات اس غرض سے حکام کے پاس لے جاؤ کہ تم دوسروں کے عمل کا کچھ حصہ نا حق طور پر جانتے بوجھتے کھاؤ‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مقدمات میں رشوت کا چلن کفر ہے ۔حضرت عمران بن حصین ؓ فرماتے جو دوسروں کا مال لوٹے ،ہم میں سے نہیں ۔حضرت عائشہ ؓ کا مبارک فرمان ہے کہ جس نے کسی کی بالشت کے برابر زمین پر نا حق قبضہ کیا (اُسے قیامت کے روز) سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میںڈالا جائے گا ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق اُسے سات زمینوںتک دھنسایاجائے گا ۔قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین آدمیوںکی طرف سے خودجھگڑا کرے گا، ان میں سے ایک وہ ہے جس نے کسی آزاد آدمی کوبازارمیں بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو ،دوسرا وہ جس نے مزدور سے پوری مزدوری لی لیکن اسے (پوری)اُجرت ادانہ کی،اسی طرح جو شخص مسلمانوں سے غلہ روک لے گا اللہ اسے کوڑھ جیسی بیماریوںمیںمبتلاکرے گا ۔
حضرت جابر ؓ کہا کرتے تھے کہ جو جسم حرام مال سے پلا بڑھا ہو، آگ اُسے سب سے پہلے جلائے گی ۔حرام کمانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی اور جو لوگ یتیموںکا مال ظلم سے کھاتے ہیں ،درحقیقت وہ اپنے پیٹوں میںآگ ڈال رہے ہیں ، وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں ڈالے جائیں گے ۔
حُبِ مال کے حوالے سے فتنے کی ممکنہ صورتیں یہ ہیں : سود خوری،رشوت ستانی،ڈاکہ زنی، املاک پر نا جائز قبضہ ،مزدور کا حق مارنا،دوسروںکا حق ہڑپنا ،ناپ تول میں کمی کرنا ،ذخیرہ اندوزی کر نا ،حرام چیزوں کا کاروبار کرنا، مالِ یتیم کھانا ،قرض ادا نہ کرنا ،عورتوں کو میراث سے محروم کرنا وغیرہ وغیرہ۔آج والدین کے لئے اولاد یں ایسی آزمائشیں ہیں جس کو اللہ رب العزت نے بار بار مال کے بڑے فتنوں کے ساتھ ملاکر بیان فرمایا۔اس آزمائشی پرکھ میں کامیاب ہونے سے اکثر والدین کوتاہیاں کرتے ہیں، نتیجہ یہ کہ ایسی اولاد بآسانی نافرمانیوں میں گرفتار ہوتی ہے ۔ جب والدین خود اللہ تعالیٰ کے نافرمان ہوں یعنی ایمان کا دعویٰ دار ہونے کے باوجود اس کے احکامات وفرامین پر عمل پیرا نہ ہوں، توبچہ اپنے ماحول، گھر ،سوسائٹی ، اسکول کے ماحول کے مطابق زندگی گزارتا ہے ۔ آج ہر گھر میں TV ہوتاہے جس کے مخرب اخلاق پروگراموں سے بچے کاذہن پچپن سے ہی غلط چیزوں سے بھر جاتا ہے ،حتیٰ کہ کارٹونوں میں ایسی چیزیں دکھائی جاتی ہیں جن سے یہ بچہ ایسی چیزیں سیکھ جاتا ہے جو اس کے لئے مباح نہیں ۔اس سے کم فہم بچوں کی غلط اندا زمیں ذہنی نشوونما ہوتی ہے ۔ زمانہ موبائیل فونوں کا ہے ،ہر بچے اور بچی کا اپنا اپنا فون ہے،اوپر سے اس کے استعمال کے بارے میں انہیںکوئی پوچھنے والا بھی نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ رات کوتین تین بجے تک بعض نوجوان موبائیل فون کی گمراہیوں میں گم ہوجاتے ہیں اور اکثر ماں باپ کو وقت کے اس استعمال پرکوئی فکر لاحق ہی نہیں ہوتی ۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ بچے کے لئے سب سے پہلی تربیت گا ہ ماں کی کوکھ ہوتی ہے ،مگر افسوس کہ مغربی تہذیب نے ہماری بعض مائو ں کی آنکھوں پر پٹی باندھ لی کہ وہ غلط خطو ط پر بچوں کی تربیت کا گناہ اپنے سر لیتی ہیں ۔گزرے زمانے میںباشعور مائیں بچوں کو دودھ اس تمنا کے ساتھ دیاکرتی تھیں کہ بڑا ہوکر دین دار ، عالم ،حافظ،اسلام کا مبلغ بنے گا ، انسانیت کا خدمت گار بنے گا مگرآج کی اکثرمائیں دودھ بچوں جلدی سوجانے کے لئے دیتی ہیں، اسی لئے تو آج پوری اُمت سوئی ہوئی ہے ۔جب ٹیپو سلطان کی ماں سے اپنے بیٹے کی بہادری کا راز پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ہمیشہ با وضو ہو کر اپنے بچے کو دودھ پلایا کرتی تھیں ۔اسی طرح امام بخاری ؒکی والدہ مسجد ِحرام میں اپنے بیٹے کے آنکھوں کی بینائی کے بارے میں بار بار دعا گوہوا کرتی تھیں ،تب جاکے ایک بار ابراہیم خلیل اللہ ؑ خواب میں آئے اور کہا کہ اللہ رب العز ت آپ کے بیٹے کو اتنی روشنی دے گا کہ وہ اس سے پوری دنیا کو روشن کردے گا۔ایسے ہی جب امام شافعی ؒ کی ماں کا بھی بڑا شوق تھا کہ میرا بیٹا علوم سیکھ جائے، اسی نیک آرزو کی تکمیل کا یہ ثبوت ہے کہ امام شافعیؒ نے چار سال کی عمر میں زبان ،چھ سال کی عمر میں قرآن مجید،آٹھ دن اور رات میں امام مالکؒکی موطا ٰ‘ ایک دن رات میں امام ابو حنیفہ ؒ کی کتاب’’اوسط‘‘ حفظ کرلی ۔
آج ہمارے معاشرے میں پانچ قسم کی اولاد پائی جاتی ہیں :اول وہ جو کبھی بھی والدین کی سنتے ہی نہیں اور مانتے بھی نہیں۔ دوم وہ جو والدین کا مانتے تو ہیں لیکن دل نہیں لگتا ان کے بتائے ہوئے کاموں میںاور مجبو ری کی حالت میں والدین کا کہامانتے ہیں۔ سوم وہ جو والدین کا کہنا تو مانتے ہیں مگر ساتھ ہی انہیںدُکھ بھی دیتے ہیں ،اُن کے احکام بجا لانے کے باوجود ایسے اعمال رائیگا ں ہوتے ہیں۔چہارم وہ جو والدین کی ہر بات سنتے اور مانتے ہیں ،اس قسم کی اولادہی جنت میں ہوگی ۔ آخری قسم کی اولاد وہ ہے جو والدین سے کوئی حکم سنتے ہی فوراً اُن کی خواہش پورا کرے ، یہ صالح اولاد کہلاتی ہے جو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگی۔
زمانے کاایک اور فتنہ بغض وحسد اور کینہ پروری ہے ۔یہ ایک ایسا شر انگیزفتنہ ہے کہ جتنا ہم زمانے کے لحاظ سے آگے جارہے ہیں ،اتنا ہی زیادہ یہ فتنہ ظہور پذیر ہورہا ہے۔ اسلام نے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا مگر افسوس اسی اسلام کو ماننے والوں کو آج سب سے زیادہ ہلاک کیا جارہاہے ۔ رُوئے زمین پر سب سے پہلے قتل کی وارادت خود آدم ؑ کے ایک بیٹے نے اپنے دوسرے بھائی کے قتل سے سر انجام دی تھی۔ پھر یہ سلسلہ بلا ناغہ چلتا رہا کہ صالحین اور حق نوازوں کو قتل کیا جاتارہا ، مال و منال اور ہوسِ زمین ، زَن، و زر میںایک دوسرے کی گردنیں ماری جاتی گئیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ازمنہ ٔ قدیم سے آج تک ملک گیری ، لوٹ کھسوٹ اور کمزروں اقوام پر اپنی اَجارہ داری یا بالادستی قائم کر نے کے شیطانی مقصد سے ظالم حکمرانوں اور بڑی عسکری قوتوں نے بے شمار لوگوں کو تہہ تیغ کیا اور یہ سلسلہ آج بھی شدومد سے جاری ہے ۔ صیہونی او ریہودی سازشوں کی وہ بدنام زماں کہانیاں تاریخ کے پنوں میں درج ہیں جن کی پاداش میں نہ صرف بے شمار مسلمان قتل ہوئے بلکہ سیدنا عمر ؓ اور سیدنا عثمان ؓ بھی ایسی ہی سازشوں کے شکار ہوکر بدرجہ ٔ شہادت پہنچے۔ بہرحال ظالموں کا ظلم دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔حضرت اِبن مسعود ؓبیان کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ ؐ نے: اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے ،دنیا ختم نہیں ہوگی تاوقتیکہ لوگوں میں ایسا دن آئے گا کہ قاتل کو یہ علم نہ ہوگا اس نے قتل کیوں کیا اور نہ مقتول کو علم ہوگا (کہ اسے کیوں قتل کیا گیا)۔ ایک اور روایت میں آپؐ نے فرمایا:لوگ ایک دوسرے کا قتل کریں گے حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی کو،اپنے چچازادبھائی کواپنے رشتہ دار کو قتل کردیں گے ۔
ہم آج چاروں اطراف دیکھتے ہیںکہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ، حد یہ کہ آج معصوم وبے ضرر چھوٹے بچے بچیاں تک محفوظ نہیں ۔آج روز کسی نہ کسی بہانے اَن گنت لوگ غیر فطری موت کی نیند سلادئے جاتے ہیں۔ہم جب آج سے سو سال سے زائد عرصہ قبل ہوئی پہلی جنگ عظیم کی تباہ کن تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو عصرحاضر کے اس شر انگیز فتنے پر اشک اشک ہوئے بنا نہیں رہ پاتے ۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق اس جنگ میںنوے لاکھ لوگ کثیر قومی جنگ مارے گئے ،اسی ہزارلاپتہ ہوئے، جب کہ دوکروڑ زخمی ہو گئے ۔دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ انسانی نفوس مغربی ا قوام کے بغض وعنادکے ہتھے چڑھ کرمارے گئے ۔روس نے ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کومارا جب کہ ایک ہی دن میں بیس لاکھ مسلموں کا خون بہا ۔ اسپین وار میں تیراں لاکھ لوگ مارے گئے ۔ کشمیر کی بات کریں تو یہاںپچھلے اٹھائیس سال میں ایک لاکھ سے پیروجوانوں کا خونِ ناحق کیا گیا ۔کچھ ماہ پہلے امریکا نے افغانستان میں سوسے سے زائد حفاظِ قرآن کو بیک جنبش قلم شہید کروایا ۔آج تک لاتعداد مسلمانوں کو فلسطین ، افغانستان،شام ،غزہ اور کشمیر میں مارا گیا ۔ پچھلے پندرہ سال سے جو افغانستان میں کشت وخون ہورہا ہے ، وہ سب پرعیاں ہے۔ اللہ بہتر جانتا آج تک کتنے انسان افغاں سرزمین میں کام آئے مگر سرکاری رپورٹوں کے مطابق 2001ء میںامریکہ نے اکتیس ہزار افغان مسلمانوں کا جنازہ نکلوایا، 2002-2004تک مزید چار ہزار نہتے افغانوں کا خون بہا،2005 میںسترہ سو ،2006میں زائدازچار ہزار ،2007 میںسات ہزار،2008میں دو ہزار،2009میںڈھائی ہزار،2010میںستایس سو ،2011میںچودہ سو،2012میںستایس سو،2013میںتین ہزار،2014میںساڑھے تین ہزار2015میںساڑھے تین ہزار،2016میںساڑھے تین ہزار،2017میںسولہ سو نہتے افغان کا خون بہا یا گیا ۔آج تک اسی طرح فلسطین میں ظالم صیہونیوں کے ہاتھوں 475,000وگ ایسے ہیںجن کے گھروں کو اُجاڑا گیا، شام،برما وغیرہم کے بارے تو روز خبریں آرہی ہیں کہ وہاں حکومت انسانیت کا سر کس طرح قتل وغارت کر کے نیچا کر رہی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنکی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دن ساٹھ ہزار لوگ خودکشیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،جن میں تین ہزار لوگ تو ہر دن خودکشیاں کر کے اپنا کام تمام کرتے ہیں ۔ہندوستان میں ہر سال10؍ لاکھ لوگ خودکشیاں کرتے ہیں ،جب کہ سرزمین کشمیر میں ہر چوتھے دن خودکشی کا ایک واقعہ سامنے آتا ہے ۔ نیشنل بیورو آف کرائم رجسٹریشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر پندرہ منٹ میں کسی نہ کسی لڑکی کی عصمت دری ہو جاتی ہے ۔ 2016ء سال کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں بچوں کے ساتھ غلط تعلقات کے 106,958واقعات سامنے آئے۔ ہندوستان میں تو ہر6منٹ میں ایک بچے کی گمشدگی کی خبر سامنے آتی ہے ۔
عورت بھی کسی انسان کے لئے بہت سارے طریقوں سے آزمائش کی وجہ بن سکتی ہے۔ دنیا میں پہلا قتل اسی عورت کے سبب کیا گیا تھا ،بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ یہی خاتون تھی، ایک انسان کے لئے عورت بہ حیثیت بیٹی بھی آزمائش بن سکتی ہے ۔آج کی بہن ا ور بیٹی کو قطعی طور نہیں بھولنا چاہئے کہ مغربی تہذیب نے ان کو دھوکے اور فریب میں رکھا ہے ۔ آج ملت اسلامیہ کی عفت مآب بیٹیوں کو اپنی تاریخ کو یاد رکھنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ انہیں جاننا چاہیے کہ حقوق نسواں کا نام نہاد چمپئین یہی مغرب کل تک خواتین کوانسان بھی تصور نہیں کرتا تھا ،تب اسلام نے ماں بہن بیٹی کو عزت دی ، آزادیاں دیں ،حقو ق دئے ، تحفظ دیا ، اکرام بخشا، نسوانی زندگی کے مخصوص شعبوں میں عمدہ کردار عطاکیا۔ دیار ِمغرب کے فکری امام اہل یونان تو خواتین کو خالص عیش و عشرت کے لئے استعمال ہو نے والی ایک عام چیز سمجھتے تھے ، یہودی طبقۂ اُناث کوخاص ایام کے دوران گھر بارسے دور کرکے جنگل یا ریگستان میں بے یارویاور چھوڑ تے اورپاک ہونے کے بعد ہی ان کوواپسی کی اجازت ملتی۔نصاریٰ تو یہ کہتے تھے کہ ہم میں سے سب سے پارسا وہ ہے جو کبھی شادی ہی نہ کرے ۔حد یہ کہ دورِجاہلیت میں اگر کوئی آدمی دوسرے آدمی کا قتل کرتا تو بدلے میں اس گھر کی خاتون کو مارا جاتا۔ان توہمات ، بے توقیریوں اور استحصال کے برعکس اسلام نے خواتین کو بے پناہ عزوشرف کا رتبہ دیا ، اُن کو دنیا میں ہی حصول ِ جنت کی ضامن گردانا ، ان کی بہترین تعلیم وتربیت کا مکلف ماں باپ اور بھائی بنایا ،ان کو میرا ث میں شایان ِشان حصہ داری عطاکی ۔ کیا ماں کی صورت میں اولاد کے لئے بے لوث خدمت کی شرط اوربیٹی کی صورت میں باپ پراچھی پرورش اور تعلیم ونگہداشت کی شرط کو بہشت کا سامان کسی دین دھرم نے بنت ِحوا کو جتلایا؟ اس لئے ہمیں آزمائش کی اس کسوٹی پر پو رااُتر نے کے لئے اللہ سے توفیق مانگنی چاہیے ۔
ایک اور بہت بڑی آزمائش گاہ دل کا جہان ہے۔انسان کے اعمال وافعال کی اچھائی یابرائی کا دارومدار اس کے پیچھے دل کی نیت اور ارادے پر منحصر ہے ۔اس لئے از روئے بشریت جو بُرے خیالات ا وروسوسے دل میں اُبھرآتے ہیں انہیں تب تک گناہ نہیں لکھا جاتاجب تک ان پر عمل درآمد نہ ہو۔ انسان چاروں طرف آلودگی اور کثافت کی شکایت کرتا ہے لیکن زمانے کا سب سے بڑی آلودگی یہ ہے کہ انسانی دل کی کثافت وغلاظت کی آماج گاہیں بنے ہیں۔ یا درکھئے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ انسان جب کوئی بُر ا فعل کر گزرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اور جب وہ مسلسل گناہ کرتا ہے تو ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس کا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے ۔اس آلودگی سے بچنے کے لئے اللہ کو حاضرو ناظر جان کر نیتیں دُرست کیجئے ، ارادوں کو خوفِ خدا اور جواب طلبی کے تابع کیجئے ، نیک عملی کا خوگر بنئے ، قرآن کو اپنے دل میں بسایئے ، اللہ کے اسمائے حسنیٰ کو ہمیشہ وردِ زبان کیجئے۔ با لفاظ دیگر دل کی کھیتی میں اچھائیوں اور نیکیوں کی کاشت کیجئے تو دنیا کے شروروفتن سے نجات ملے گی۔
زبان کی آزمائش بھی ایک سخت ترین آزمائش ہے ۔ کہتے ہیں کہ انسان اس کے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے اوراخلاق کوظاہر کر نے میں زبان ایک خصوصی آئینے کا حکم رکھتی ہے۔ فرمایااکثر انسانوں کو جہنم میں لے جانے کی باعث زبان ہی ہوگی یعنی زبان بے اعتدال اور بے لگام ہو تو آدمی کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔آج ہم بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمیں کونسا لفظ کہا ںبولنا چاہئے اور کو نسا لفظ قطعی نہیں بولنا چاہیے۔ا فسو س کہ زبان کے فتنوں سے بچنے کے لئے ہم اکثرو بیش تر اپناحتساب کرنے سے کتراتے ہیں۔کاش ہم یہ جانتے کہ ہمارے ایک جھوٹ بکنے سے کسی کا کتنا نقصان ہوسکتا ہے اور خود ہمارے نامہ ٔ اعمال میں کذب بیانی سے کن کن گناہوں کا اندارج ہوسکتاہے ۔آں حضور ؐکو اخلاقِ رذیلہ میں سب سے زیادہ نفرت جھوٹ سے تھی ۔ جھوٹ بولنے سے کمائی میں برکت ختم ہوجاتی ہے ۔ جھوٹی قسمیں کھا کر مال بیچنے والے کو قیا مت کے دن چار سزائیں دی جائے گی ۔اول اللہ تعالیٰ اس پر ناراضی کے سبب کلام نہیں فرمائے گا ،دوئم اللہ کی رحمت سے وہ شخص محروم رہے گا ،سوئم اللہ اسے پاک نہیں فرمائے گا ،چہارم جہنم میں اُسے دردناک عذاب دیا جائے گا۔ زبان کا ایک جرم غیبت ہے ، ا س سے سختی کے ساتھ قرآن و حدیث میں منع فرمایاگیا ہے بلکہ غیبت کر نا ایساہی گناہ جتلایا گیا ہے جیسے ا س کامرتکب اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ کھائے ۔ ہماری عادت یہ بنی ہے کہ کسی نہ کسی کی برائی پیٹھ پیچھے کرتے ہی رہتے ہیں اور یہ تک نہ جانتے کہ اس کے کتنے زیادہ مہلک اثرات ہیں۔پہلے پہلے تو یہ بدصفتی بعض باتونی عورتوں میں پائی جاتی تھی مگر آج کل بعض مرد میں بھی یہ جرثومہ داخل ہوچکا ہے ۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: ـ اے لوگو ! ،جو زبان سے ایمان لائے ہو لیکن تمہارے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا ،مسلمانوں کی غیبت نہ کر و، نہ ہی ان کے عیوب کے پیچھے پڑو، بے شک جو شخص مسلمانوں کے عیوب کے پیچھے پڑے گا اللہ ا س کے عیب کے پیچھے پڑجائے گا اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑجائے اُسے اُس کے گھر میں ہی ذلیل کرتا ہے۔غیبت کرنے والوں کے ناخن جہنم میں سرخ تانبے کے بنا دئے جائیں گے جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے کا گوشت نوچیںگے۔غیبت کی ایک بات جہنم کے ایک انگارے کے برابر ہے ۔اسی طرح چغل خوری بھی زبان کے فتن میں داخل ہے۔اس کی سزا کے بارے میں رسول اللہ ؐفرماتے ہیں کہ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا ،چغل خور کو قبر میں عذاب ہوتا ہے ۔ لوگوں میں بدترین آدمی چغل خور ہے۔ حفظ لسان کا مکمل اہتمام اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اشتعال انگیزی کے باوجود گالی گلوچ سے بھی بچ کے رہیں۔ انسانی زبان کے غلط استعمال ( بشمول قلم کے ناجائز استعمال) سے اٹھنے والے فتنوں میں جھوٹ ،جھوٹی قسم،جھوٹی گواہی ، غیبت ،تہمت ،چغل خوری ،لعن طعن اور سب وشتم کرنا،احسان جتلانا ،بد گمانیاں پھیلانا ، کسی کامذاق اُڑانا،وعدہ خلافی کرنا،بے مقصد گفتگو کرنا،بد اخلاقی سے پیش آنا ،بے عزتی کرنا ،بدکلامی کرنا،بے حیائی پھیلانا، حق کی گواہی چھپانا ،فحش گوئی کر نا ، غلط سلط خبریں پھیلانا وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔
آخر میں اللہ رب العزت سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ہمیں دنیا کے ان تمام کریہہ الصورت فتنوں سے محفوظ رکھے ، اپنی زندگی کے نیک و صالح مقاصد حاصل کرنے کی راہ میں آنے والی جملہ آزمائشوں میںمکمل کامیابی عطاکرے اور زمانے کے شرور وفتن کا فہم ہمیں عطاکرے تاکہ فتنہ ہائے دہر کا مقابلہ ہم ایمان وصداقت کے نورسے کر نے کی قوت و صلاحیت اللہ کی توفیق سے پائیں۔
(ختم شد)
رابطہ :9622069968